چین اور نیپال بیلٹ اینڈ روڈ تعاون مستحکم انداز میں آگے بڑھ رہا ہے
چین اور نیپال کے درمیان بیلٹ اینڈ روڈ تعاون: مستحکم ترقی کی جانب
بین الاقوامی تعلقات کی موجودہ دنیا میں، علاقائی تعاون، معاشی اشتراک، اور تزویراتی شراکت داریاں کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔ ایسے میں چین اور نیپال کے درمیان بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کے تحت بڑھتا ہوا تعاون ایک روشن مثال بن کر سامنے آیا ہے۔ حالیہ دنوں میں چینی صدر شی جن پھنگ اور نیپالی وزیراعظم کے پی شرما اولی کے درمیان تیانجن میں ہونے والی ملاقات اسی تعاون کا واضح مظہر ہے، جہاں دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات، اقتصادی شراکت داری، اور علاقائی استحکام کو مزید فروغ دینے پر زور دیا۔
تاریخی تناظر
چین اور نیپال کے تعلقات کی بنیاد کئی دہائیوں پرانی دوستی، باہمی احترام اور ہمسائیگی کے اصولوں پر مبنی ہے۔ سات دہائیوں پر محیط اس رفاقت نے وقت کے ہر امتحان کو کامیابی سے عبور کیا ہے۔ دونوں ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی کو ترجیح دی ہے اور علاقائی سالمیت کے احترام کو بنیادی اصول مانا ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کا کردار
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو صدر شی جن پھنگ کا ایک وژنری منصوبہ ہے جس کا مقصد ایشیا، یورپ اور افریقہ کو باہم منسلک کرنا ہے۔ نیپال، جو جغرافیائی لحاظ سے چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے، BRI میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین اور نیپال کے درمیان کئی اہم انفراسٹرکچر منصوبے زیر غور اور زیر تکمیل ہیں، جن میں سڑکیں، ریلویز، توانائی کے منصوبے، اور بندرگاہی تعاون شامل ہیں۔
صدر شی جن پھنگ نے ملاقات کے دوران واضح کیا کہ بیلٹ اینڈ روڈ تعاون نہ صرف ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ہے بلکہ یہ ایک دیرپا شراکت داری کی علامت ہے جو دونوں ممالک کو معاشی و سماجی ترقی کے نئے دور میں داخل کر سکتی ہے۔ نیپال کے وزیراعظم نے بھی اعتراف کیا کہ چین کے ساتھ BRI تعاون نے نیپال کی معیشت کو نئی جہت دی ہے۔
انفراسٹرکچر اور معاشی ترقی
چین اور نیپال کے درمیان حالیہ برسوں میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے متعدد منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ نیپال میں سڑکوں کی تعمیر، بجلی کی ترسیل کے نظام کو بہتر بنانا، اور ہوائی اڈوں کی توسیع جیسے منصوبے چین کے تعاون سے مکمل ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر بندرگاہ، شاہراہ، بجلی کے گرڈ، ہوا بازی اور مواصلات کے شعبوں میں دونوں ممالک نے مشترکہ ترقی کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
صدر شی نے اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کو ان منصوبوں پر پیش رفت تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو ان کے فوائد جلد از جلد حاصل ہوں۔ انہوں نے زراعت، مویشی پالنے، نئی توانائی، ماحولیاتی تحفظ، تیل و گیس، مصنوعی ذہانت، تعلیم، صحت، اور سیکیورٹی جیسے شعبوں میں بھی تعاون بڑھانے کی خواہش ظاہر کی۔
سفارتی اور سیکیورٹی تعاون
نیپالی وزیراعظم اولی نے چین کے ساتھ سفارتی تعاون کو نہایت اہم قرار دیا اور ایک چین پالیسی کی بھرپور حمایت کا اعادہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ نیپال "تائیوان کی آزادی” کے کسی بھی علیحدگی پسند ایجنڈے کی مخالفت کرتا ہے اور اپنی سرزمین کو کسی ایسی سرگرمی کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا جو چین کے مفادات کے خلاف ہو۔
نیپال کی جانب سے چین کے پیش کردہ گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو (GDI)، گلوبل سکیورٹی انیشی ایٹو (GSI) اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو (GCI) کی حمایت ظاہر کرنا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ نیپال عالمی امور میں چین کے ابھرتے ہوئے کردار کو تسلیم کرتا ہے اور اسے ایک مستحکم اور ذمے دار عالمی قوت کے طور پر دیکھتا ہے۔
علاقائی اور عالمی تناظر
نیپال کی جغرافیائی پوزیشن اسے جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک قدرتی پل بناتی ہے۔ چین کی جانب سے نیپال کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے، جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا حصہ ہیں، نہ صرف دونوں ممالک کو قریب لاتے ہیں بلکہ پورے خطے کی ترقی اور استحکام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
چین کی حکمت عملی ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور شراکت داری کی بنیاد پر تعلقات استوار کیے جائیں۔ نیپال بھی اسی وژن کو عملی شکل دے رہا ہے، جس کے اثرات دونوں اقوام کی عوام تک پہنچ رہے ہیں۔
اعلیٰ سطحی قیادت کی موجودگی
تیانجن میں ہونے والی ملاقات میں چین کے اعلیٰ حکام جیسے کائی چھی، وانگ یی اور چھن من ار کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ چین نیپال کے ساتھ تعلقات کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ تعلقات صرف سفارتی یا اقتصادی حد تک محدود نہیں بلکہ اس میں ثقافتی تبادلے، تعلیمی اشتراک، اور عوامی روابط کو بھی فروغ دیا جا رہا ہے۔
مستقبل کی سمت
چین اور نیپال کا مشترکہ ہدف ایک ایسا خطہ تعمیر کرنا ہے جہاں ترقی، امن، اور باہمی خوشحالی ہو۔ بیلٹ اینڈ روڈ تعاون اس سمت میں ایک مضبوط قدم ہے جو نیپال کو زمینی بندش سے نکل کر ایک تجارتی و اقتصادی مرکز میں تبدیل کر سکتا ہے۔ آنے والے برسوں میں اگر دونوں ممالک اسی خلوص نیت، مشترکہ اہداف اور عملی اقدامات سے آگے بڑھتے رہے، تو یہ تعاون نہ صرف دونوں ملکوں کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے ایک ترقیاتی سنگ میل بن سکتا ہے۔
چین اور نیپال کے درمیان بیلٹ اینڈ روڈ تعاون صرف سڑکوں یا پلوں کی تعمیر کا منصوبہ نہیں بلکہ ایک ایسی گہری شراکت داری ہے جو آنے والے وقت میں دونوں ممالک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ صدر شی جن پھنگ اور وزیراعظم کے پی شرما اولی کی قیادت میں دونوں ممالک کے درمیان اعتماد، تعاون، اور ترقی کا یہ سفر مسلسل کامیابی کی طرف گامزن ہے، جو نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک مثال قائم کر رہا ہے۔
Comments 2