چینی کی قیمتوں میں کمی نہ آسکی، وزیراعظم کا کریک ڈاؤن کا حکم، شہری پریشان
چینی کی قیمتوں میں کمی نہ آ سکی، عوام مہنگی چینی خریدنے پر مجبور
ملک بھر میں چینی کی قیمت میں مسلسل اضافہ عوام کے لیے شدید پریشانی کا باعث بن چکا ہے۔ جولائی 2025 کے اختتام پر بھی حکومتی کوششوں کے باوجود چینی کی قیمتوں میں کوئی واضح کمی نہیں آ سکی، اور شہری سرکاری مقرر کردہ نرخوں پر چینی تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ایکس مل قیمت 165 روپے اور ریٹیل قیمت 173 روپے فی کلو مقرر کی گئی ہے، تاہم عملی طور پر ان نرخوں پر چینی دستیاب نہیں۔
بڑے شہروں میں چینی کے نرخ
ملک کے مختلف شہروں سے موصول ہونے والی رپورٹس کے مطابق چینی کی قیمتیں حکومتی نرخ سے کہیں زیادہ ہیں۔
- حیدرآباد میں چینی 190 سے 200 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔
- کراچی میں ریٹیل سطح پر چینی 180 سے 190 روپے کلو تک پہنچ چکی ہے۔
- پشاور اور کوئٹہ میں بھی چینی 180 روپے فی کلو سے کم نرخ پر دستیاب نہیں۔
- لاہور میں صورتحال اس سے بھی بدتر ہے، جہاں کئی دکانوں پر چینی دستیاب ہی نہیں۔
لاہور میں شوگر ملز اور ڈیلرز کے درمیان تنازع
لاہور میں چینی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے، جہاں ڈیلرز اور شوگر ملز مالکان کے درمیان نرخوں پر اختلاف شدت اختیار کر چکا ہے۔ ڈیلرز کا کہنا ہے کہ شوگر ملز مالکان سرکاری نرخ 165 روپے پر چینی فراہم نہیں کر رہے، جس کے باعث دکانیں خالی پڑی ہیں اور شہری در بدر چینی تلاش کر رہے ہیں۔
کراچی میں گراں فروشی کے خلاف کارروائی
کراچی میں چینی کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف انتظامیہ نے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔ کارروائی کے دوران:
- 7 دکانیں سیل کر دی گئیں
- 2 گراں فروش گرفتار کیے گئے
- 10 لاکھ 77 ہزار روپے کے جرمانے عائد کیے گئے
یہ کارروائیاں ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹی کی مشترکہ کوششوں سے عمل میں آئیں، مگر اس کے باوجود شہری شکایت کرتے ہیں کہ چینی اب بھی مہنگے داموں بیچی جا رہی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کا ردعمل
چینی کی قیمتوں پر کنٹرول نہ ہونے پر وزیراعظم شہباز شریف نے نوٹس لیتے ہوئے ملک بھر میں سخت کارروائی کی ہدایت جاری کی۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ:
"چینی کی زائد قیمت وصول کرنے والوں کو کسی صورت رعایت نہیں دی جائے گی، معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے عناصر کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کی جائے۔”
وزیراعظم نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ شوگر ملز اور پرچون فروشوں کی کڑی نگرانی کی جائے اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں۔
عوامی ردعمل اور پریشانیاں
ملک بھر کے شہری چینی کی بڑھتی قیمتوں پر شدید پریشان ہیں۔ ایک خاتون صارف کا کہنا تھا:
"پہلے ہی آٹا، گھی اور سبزیاں مہنگی ہیں، اب چینی بھی 200 روپے کلو ہو گئی ہے۔ غریب کہاں جائے؟”
ایک اور شہری نے کہا
"حکومت صرف قیمتیں طے کرتی ہے، مگر دکانوں پر اس پر عملدرآمد نظر نہیں آتا۔”

ماہرین کی رائے
ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ صرف طلب و رسد کا مسئلہ نہیں بلکہ ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، اور حکومتی کنٹرول میں کمی بھی اس بحران کا سبب ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ چینی سستی ہو تو:
- شوگر ملز کی مانیٹرنگ کو سخت کیا جائے
- ذخیرہ اندوزوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے
- سبسڈی کے نظام کو شفاف بنایا جائے
- مقامی انتظامیہ کو بااختیار اور فعال بنایا جائے
ممکنہ حل اور اقدامات
- شوگر ملز کی روزانہ بنیاد پر مانیٹرنگ کی جائے
- آن لائن قیمت مانیٹرنگ ایپ متعارف کرائی جائے
- بروقت رپورٹنگ اور سوشل میڈیا ہیلپ لائنز قائم کی جائیں
- ذخیرہ اندوزی پر سخت سزائیں دی جائیں
- ڈی سی سطح پر عوامی شکایات سیل قائم ہوں
چینی کا بحران ایک سنجیدہ قومی مسئلہ بن چکا ہے، جس کے حل کے لیے محض بیانات نہیں بلکہ زمینی سطح پر سخت اقدامات درکار ہیں۔ اگر حکومت واقعی عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے نہ صرف چینی کی قیمت پر کنٹرول کرنا ہوگا بلکہ ذخیرہ اندوزی اور کارٹل مافیا کے خلاف مستقل بنیادوں پر مؤثر کارروائی بھی کرنی ہوگی۔ بصورت دیگر، عام شہری مہنگائی کی چکی میں یوں ہی پستا رہے گا۔
