چینی کی قیمت میں اضافہ کیوں؟ اصل وجہ سامنے آگئی
پاکستان میں مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ رکھی ہے، اور اس وقت سب سے زیادہ زیرِ بحث موضوع ہے چینی کی قیمت میں اضافہ، جس نے گھر گھر میں پریشانی کی لہر دوڑا دی ہے۔ راولپنڈی سمیت ملک کے کئی علاقوں میں چینی کی فی کلو قیمت 200 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ یہ اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟ اس کے پیچھے کی کہانی کیا ہے؟ آئیے تفصیل جانتے ہیں۔
چینی کی قیمت کہاں تک پہنچ گئی؟ — مارکیٹ سے تازہ ترین ریٹ
مارکیٹ ذرائع کے مطابق راولپنڈی میں چینی کی فی کلو قیمت 200 روپے ہے۔ جبکہ اسلام آباد، لاہور، کراچی اور پشاور جیسے شہروں میں 185 سے 195 روپے تک فروخت ہو رہی ہے۔
وہیں 50 کلو چینی کی بوری کی قیمت 8800 روپے تک پہنچ چکی ہے۔ ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی فی کلو قیمت 176 روپے ریکارڈ کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ مختلف مارکیٹوں میں چینی کی دو اقسام دستیاب ہیں:
باریک چینی: 185 سے 190 روپے فی کلو
کمرشل چینی: 190 سے 200 روپے فی کلو
چینی کی قیمت میں اضافہ نے جہاں صارفین کو پریشان کیا ہے، وہیں تاجروں نے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
چینی کی مہنگائی کا اصل سبب — کرشنگ کا آغاز نہ ہونا
حیران کن طور پر اس مرتبہ چینی کی قیمت میں اضافہ کا سبب براہ راست پیداواری عمل سے جڑا ہوا ہے۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق گنے کی کرشنگ کا سیزن تاخیر کا شکار ہے، جس کی وجہ سے چینی کی رسد کم ہو گئی ہے۔
یہ تاخیر شوگر ملوں کے کھلنے میں رکاوٹ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کسان ابھی تک گنے کی فصل ملوں تک نہیں پہنچا پا رہے، جب کہ ملز مالکان کا دعویٰ ہے کہ حکومتی پالیسیوں اور ٹیکس نظام کی وجہ سے ان کا کام متاثر ہو رہا ہے۔
سٹاک ہولڈنگ، ذخیرہ اندوزی یا مارکیٹ کی مجبوری؟
مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ تاجروں نے چینی کی قیمت میں اضافہ کے خدشے کو سامنے رکھتے ہوئے اسٹاک جمع کر لیا ہے۔ اس ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے بازار میں طلب اور رسد کا توازن بگڑ رہا ہے۔
اگرچہ حکومتی ادارے اس کی تردید کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ مارکیٹ سے چینی غائب ہو رہی ہے، خاص طور پر کمرشل استعمال کے لیے۔ عام صارف کے لئے چینی کی دستیابی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
صارفین کی پریشانی — ایک کچن میں کئی مسائل
ایک عام پاکستانی کے لیے چینی روز مرہ کی اشیاء میں سے ایک ہے۔ چائے، میٹھے پکوان، بیکری آئٹمز، حتیٰ کہ بچوں کا دودھ بھی چینی کے بغیر مکمل نہیں۔
اب جب کہ چینی کی قیمت میں اضافہ نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے، تو لوگ مجبور ہیں کہ اپنے بجٹ میں کٹوتیاں کریں۔ کچھ شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ مارکیٹ میں دو دو گھنٹے چکر لگا کر بھی مناسب دام پر چینی نہیں خرید پا رہے۔
کیا حکومت کوئی قدم اٹھائے گی؟ — امید کی کرن یا مایوسی؟
حکومت کی جانب سے وقتی طور پر ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں، لیکن یہ اقدامات مسئلے کا مکمل حل نہیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ جب تک گنے کی کرشنگ میں تسلسل نہیں ہوگا، تب تک چینی کی قیمت میں اضافہ جاری رہنے کا امکان ہے۔
دوسری طرف عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت چینی کی قیمت کو کنٹرول کرے، شوگر ملوں سے جواب طلب کرے، اور متبادل انتظامات کرے تاکہ چینی کی فراہمی بحال ہو سکے۔
اقتصادی ماہرین کی رائے — مارکیٹ کو مستحکم کرنے کی ضرورت
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی کی قیمت میں اضافہ ایک عارضی مسئلہ نہیں بلکہ نظامی خرابی ہے۔ جب تک:
گنے کی بروقت فراہمی
شوگر ملوں کا شفاف آپریشن
اور حکومتی ریگولیٹری اداروں کا مضبوط کنٹرول
نہیں ہوگا، چینی کی قیمتوں کو قابو میں رکھنا تقریباً ناممکن ہے۔
عوام کے لئے تجاویز — خرچ میں احتیاطی تدابیر
گھریلو صارفین کو چاہیے کہ چینی کا استعمال مناسب انداز سے کریں۔ ضرورت کے مطابق خریداری کریں اور بلیک مارکیٹ سے بچیں۔ مہنگائی کے اس دور میں بچت ہی بقا ہے۔
پنجاب شوگر ملز کرشنگ—27 ملز نے کام شروع کیا، حکومت کا ایکشن پلان تیار
آخر میں — کیا چینی کی قیمتیں کم ہوں گی؟
اگرچہ مارکیٹ میں توازن کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن حالات فی الحال واضح نہیں۔ چینی کی قیمت میں اضافہ کا رجحان برقرار رہنے کا اندیشہ ہے، خصوصاً جب تک کرشنگ سیزن کا آغاز نہیں ہوتا۔









