78 اربوں روپے کی وزارتِ مواصلات میں بے ضابطگیاں — آڈیٹر جنرل کی چونکا دینے والی رپورٹ، 50 ارب صرف پاکستان پوسٹ میں رپورٹ
اسلام آباد (رئیس الاخبار ):–پاکستان میں سرکاری اداروں میں کرپشن، بدانتظامی اور مالی بے ضابطگیوں کے انکشافات کوئی نئی بات نہیں، تاہم وزارتِ مواصلات میں سامنے آنے والی 78 ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیوں نے ایک بار پھر عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ سرکاری اداروں کے مالی معاملات کس حد تک شفاف ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان (AGP) کی تازہ ترین رپورٹ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ صرف پاکستان پوسٹ آفس میں ہی 50 ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیاں رپورٹ ہوئی ہیں۔
وزارتِ مواصلات میں بے ضابطگیاں کی رپورٹ پارلیمانی اور حکومتی حلقوں میں نہ صرف تشویش کی لہر پیدا کر رہی ہے بلکہ عوامی سطح پر بھی بحث کا باعث بنی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان پوسٹ آفس، جو کہ ملک بھر میں لاکھوں صارفین کو سروس فراہم کرتا ہے، مالی بے ضابطگیوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ صرف اسی ادارے میں 28 کروڑ 42 لاکھ روپے کی کرپشن اور چوری رپورٹ ہوئی۔ مزید برآں، پاکستان پوسٹ کے ایچ آر ڈپارٹمنٹ میں بھی 1 ارب 25 کروڑ 69 لاکھ روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں، جس سے ادارے کی انتظامی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
خریداری میں بے ضابطگیاں
رپورٹ کے مطابق پاکستان پوسٹ کی مختلف خریداریوں میں 2 ارب 84 کروڑ روپے کی سنگین بے ضابطگیاں ہوئیں۔ یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ حکومتی قواعد و ضوابط، بالخصوص PPRA رولز (Public Procurement Regulatory Authority) کو نظرانداز کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق خریداری کے معاملات میں شفافیت کی کمی نہ صرف مالی نقصان کا باعث بنتی ہے بلکہ ادارے کی کارکردگی کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔
کمرشل بینکوں میں اکاؤنٹس کے باعث نقصان
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ وزارت کے کمرشل بینکوں میں کھاتوں کے باعث 4 ارب 58 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ یہ نقصان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مالیاتی منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی کے فقدان نے سرکاری خزانے کو اربوں روپے کے نقصان سے دوچار کیا۔
عدم ریکوریاں اور سنگین کیسز
وزارتِ مواصلات میں بے ضابطگیاں رپورٹ کے مطابق وزارتِ مواصلات میں 12 کیسز میں 9 ارب 42 کروڑ روپے کی عدم ریکوریاں سامنے آئیں۔ مزید یہ کہ 13 کیسز میں 58 ارب روپے سے زائد کی بے ضابطگیاں رپورٹ ہوئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادارے میں کئی برسوں سے مالی معاملات کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور احتساب کے مؤثر نظام کی کمی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی سفارشات
آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں واضح سفارشات پیش کی ہیں جن میں درج ذیل اقدامات شامل ہیں:
پاکستان پوسٹ میں ذمہ داران کے خلاف فوری کارروائی مکمل کی جائے۔
خریداری میں PPRA رولز کی سختی سے پابندی کو یقینی بنایا جائے۔
خسارے میں چلنے والے ڈاک خانوں کو منافع بخش بنانے کے لیے جامع حکمت عملی اپنائی جائے۔
مالیاتی ڈسپلن اور احتساب کے نظام کو مزید مضبوط بنایا جائے تاکہ آئندہ اس طرح کی بے ضابطگیوں سے بچا جا سکے۔
ایف بی آر آکشن ماڈیول اسکینڈل،103 گاڑیاں، جعلی آئی ڈیز اور طاقتور مافیا کے کردار پر سوالات
عوامی ردعمل اور ماہرین کی رائے
وزارتِ مواصلات میں بے ضابطگیاں سامنے آنے کے بعد عوامی حلقوں میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان پوسٹ جیسے ادارے جو عام شہری کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، ان میں اربوں روپے کی بے ضابطگیاں عوامی اعتماد کو متزلزل کرتی ہیں۔
معاشی ماہرین نے کہا کہ پاکستان پوسٹ جیسے ادارے اگر جدید طرز پر چلائے جائیں تو یہ نہ صرف منافع بخش ثابت ہوسکتے ہیں بلکہ حکومت کے مالی بوجھ کو بھی کم کرنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کی مالی بے ضابطگیوں سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ مگر بدانتظامی اور کرپشن نے اس ادارے کو خسارے میں دھکیل دیا ہے۔
پاکستان پوسٹ کا تاریخی پس منظر
پاکستان پوسٹ کا شمار برصغیر کے قدیم اداروں میں ہوتا ہے، جسے برطانوی دورِ حکومت میں قائم کیا گیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ ادارہ شہریوں کو سستی اور قابلِ اعتماد ڈاک خدمات فراہم کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرتا رہا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید تقاضوں کو پورا نہ کرنے اور بدانتظامی کی وجہ سے یہ ادارہ اپنی افادیت کھونے لگا۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ڈاک کے ادارے ای-کامرس، کورئیر سروسز، ڈیجیٹل ادائیگیوں اور لاجسٹک کے جدید نظام سے اربوں ڈالر کما رہے ہیں، مگر پاکستان پوسٹ ابھی بھی روایتی ڈھانچے میں جکڑا ہوا ہے۔
کرپشن اور قومی معیشت
پاکستان جیسے ملک میں جہاں پہلے ہی معاشی بحران شدت اختیار کر رہا ہے، وہاں سرکاری اداروں میں اربوں روپے کی کرپشن اور بے ضابطگی عوام کے لیے مزید مشکلات پیدا کرتی ہے۔ ایک طرف حکومت آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول کے لیے کڑی شرائط مان رہی ہے اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈالا جا رہا ہے، تو دوسری طرف قومی خزانے کا پیسہ اس طرح ضائع ہونا نہایت افسوسناک ہے۔
اصلاحات کی ضرورت
ماہرین کے مطابق اگر حکومت واقعی اصلاحات چاہتی ہے تو اسے درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے:
پاکستان پوسٹ کو ڈیجیٹلائزیشن کی طرف لے جایا جائے۔
تمام خریداریوں اور مالی لین دین میں ٹرانسپیرنسی یقینی بنائی جائے۔
غیر منافع بخش ڈاک خانوں کو بند یا نجی شعبے کے اشتراک سے چلایا جائے۔
بدعنوان اہلکاروں کے خلاف سخت سزائیں دی جائیں تاکہ دوسروں کے لیے مثال قائم ہو۔
آڈیٹر جنرل کی (pakistan post office corruption)وزارتِ مواصلات میں بے ضابطگیاں رپورٹ صرف ایک ادارے کی بدانتظامی کا عکاس نہیں بلکہ یہ پاکستان کے حکومتی ڈھانچے کی مجموعی خامیوں کو ظاہر کرتی ہے۔ جب تک سرکاری اداروں میں شفافیت، احتساب اور جدید تقاضوں کے مطابق اصلاحات نہیں کی جاتیں، تب تک ایسے اسکینڈلز سامنے آتے رہیں گے اور عوام کا اعتماد کم ہوتا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت وزارتِ مواصلات میں بے ضابطگیاں رپورٹ کو سنجیدگی سے لے کر اصلاحات کرے گی یا یہ رپورٹ بھی دیگر رپورٹس کی طرح فائلوں میں دب کر رہ جائے گی؟ وقت ہی بتائے گا۔