ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان پر بیرونی دباؤ، سینیٹ میں سنجیدہ خدشات
پاکستان میں ڈیٹا کی حفاظت ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، اور حال ہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اجلاس میں اس پر کھل کر بات کی گئی۔ اجلاس میں انکشاف ہوا کہ بیرونی طاقتیں پاکستان کو ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان بنانے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ دباؤ اس لیے ہے کہ اگر پاکستان نے اپنا ڈیٹا محفوظ کرنے کا مضبوط فریم ورک تیار کر لیا تو بین الاقوامی سطح پر ڈیٹا کی غیر قانونی تجارت متاثر ہو سکتی ہے۔ چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے بھی ڈارک ویب پر پاکستانیوں کے ڈیٹا کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان کی ضرورت اور پس منظر
ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان کی ضرورت آج کے ڈیجیٹل دور میں ناگزیر ہے۔ پاکستان میں ڈیٹا لیکس کے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں، جن میں شہریوں کی ذاتی معلومات، جیسے شناختی کارڈ نمبرز، فون نمبرز اور بینک ڈیٹیلز، ڈارک ویب پر فروخت ہو رہے ہیں۔ سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ اگر ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان نہ بنایا گیا تو ملک کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ یہ قانون نہ صرف شہریوں کی پرائیویسی کی حفاظت کرے گا بلکہ ملک کی قومی سلامتی کو بھی مضبوط بنائے گا۔
پاکستان میں ڈیٹا پروٹیکشن کے حوالے سے اب تک کوئی جامع قانون موجود نہیں ہے، حالانکہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اس پر کام کر رہی ہے۔ 2023 میں پیش کیے گئے پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل پر اب تک بحث جاری ہے، اور سٹیک ہولڈرز سے مشاورت ہو رہی ہے۔ بیرونی دباؤ کی وجہ سے یہ بل تاخیر کا شکار ہے، جو پاکستان کی ڈیجیٹل خودمختاری کے لیے خطرناک ہے۔ ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان بنانے سے کمپنیاں اور ادارے ڈیٹا ہینڈلنگ کے معیارات پر عملدرآمد کریں گے، جو ڈیٹا لیکس کو روک سکے گا۔
بیرونی دباؤ اور اس کے اثرات
اجلاس میں سینیٹر افنان اللہ نے واضح طور پر کہا کہ "ہمیں باہر سے دباؤ آرہا ہے کہ پاکستان میں ڈیٹا کو محفوظ بنانے کے لیے قانون نہ بنایا جائے”۔ یہ دباؤ ممکنہ طور پر ان ملکوں یا اداروں سے ہے جو پاکستانی ڈیٹا کی غیر قانونی رسائی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، اسرائیل اور ایران کے تنازع میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سے حاصل کیے گئے ڈیٹا کا استعمال کیا گیا، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان کی عدم موجودگی میں ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
بیرونی دباؤ کی وجہ سے ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان کی تاخیر سے شہریوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ڈارک ویب پر پاکستانی ڈیٹا کی فروخت سے شناخت کی چوری، مالی دھوکہ دہی اور دیگر جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پی ٹی اے کے چیئرمین نے بتایا کہ 2022 میں اندرونی انکوائری کی گئی تھی، اور اب وزارت داخلہ اس پر تحقیقات کر رہی ہے۔ اگر ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان جلد نافذ نہ کیا گیا تو یہ دباؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔
ڈیٹا چوری کے حالیہ واقعات
پاکستان میں ڈیٹا چوری کے متعدد کیسز سامنے آئے ہیں۔ حال ہی میں حج درخواست دہندگان کے تقریباً تین لاکھ افراد کا ڈیٹا ڈارک ویب پر دستیاب پایا گیا۔ پی ٹی اے کے چیئرمین نے کہا کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، اور حکومت کو ایک محفوظ ڈیٹا سینٹر بنانا چاہیے۔ اس کے علاوہ، NADRA، SIM کارڈز اور دیگر اداروں سے ڈیٹا لیکس ہوئے ہیں، جن کی مالیت اربوں روپے ہے۔ سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ ڈیٹا کو الگ الگ اداروں سے چوری کیا جاتا ہے اور پھر اکٹھا کر کے بیچا جاتا ہے۔
ڈارک ویب پر پاکستانی ڈیٹا کی فروخت سے ملک کی معیشت اور سلامتی متاثر ہو رہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، ایک SIM کا ڈیٹا 500 روپے میں فروخت ہو رہا ہے، جو مجموعی طور پر 65 ارب روپے کی مالیت رکھتا ہے۔ ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان کی عدم موجودگی میں یہ لیکس جاری رہیں گے، جو شہریوں کی پرائیویسی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ پی ٹی اے نے ان لیکس کی تردید کی ہے کہ یہ ٹیلی کام سیکٹر سے نہیں ہیں، لیکن تحقیقات کی ضرورت ہے۔
وزارت آئی ٹی کی کارکردگی اور کمیٹی کی تنقید
سینیٹ کمیٹی نے وزارت آئی ٹی کی نااہلی پر تنقید کی۔ چیئر پرسن پلوشہ خان نے کہا کہ پی ٹی سی ایل اور یوفون کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں، جو پبلک انفارمیشن ہے۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ نے طنزاً کہا کہ وزارت ہمیں بھی ایسے بورڈ میں شامل کر دے جہاں 5 ہزار ڈالر فی میٹنگ ملتے ہوں۔ وزارت نے بتایا کہ ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان کے مسودے پر کام جاری ہے، اور سٹیک ہولڈرز سے مشاورت ہو رہی ہے۔
کمیٹی نے وفاقی وزیر آئی ٹی کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ وزیر اعظم کو ہدایات دی جائیں کہ کمیٹی اجلاس کے دوران انہیں نہ بلایا جائے۔ یہ تنقید اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان کی تاخیر ministry کی نااہلی کی وجہ سے ہے۔
ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان کے فوائد
ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان نافذ ہونے سے شہریوں کو اپنے ڈیٹا پر کنٹرول ملے گا۔ کمپنیاں ڈیٹا جمع کرنے، استعمال اور شیئر کرنے کے لیے رضامندی طلب کریں گی، اور خلاف ورزی پر جرمانے ہوں گے۔ یہ قانون EU کے GDPR کی طرح ہو سکتا ہے، جو پاکستان کی IT exports کو بڑھا سکتا ہے، جو 3 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ بیرونی دباؤ کے باوجود، یہ قانون ملک کی ڈیجیٹل معیشت کو مضبوط بنائے گا۔
پاکستان میں ڈیٹا لیکس کی روک تھام کے لیے ہائی لیول سیکیورٹی والے ڈیٹا سینٹرز کی ضرورت ہے۔ پی ٹی اے اور وزارت داخلہ کی تحقیقات سے یہ واضح ہو گا کہ ڈیٹا کہاں سے لیک ہو رہا ہے۔ ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان سے نہ صرف شہری محفوظ ہوں گے بلکہ ملک کی قومی سلامتی بھی بہتر ہو گی۔
وزیر داخلہ موبائل ڈیٹا لیک معاملے پر سخت ایکشن، کمیٹی تشکیل
مستقبل کی سفارشات
سینیٹ کمیٹی کو چاہیے کہ ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان کو جلد منظور کرائے۔ بیرونی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے بین الاقوامی معاہدوں کا جائزہ لیا جائے۔ شہریوں کو ڈیٹا سیکیورٹی کی آگاہی دی جائے، اور اداروں کو ڈیٹا ہینڈلنگ کی تربیت دی جائے۔ اگر یہ قانون نافذ ہو گیا تو پاکستان ڈیجیٹل طور پر خود کفیل بن سکتا ہے۔
اس اجلاس سے یہ واضح ہے کہ ڈیٹا پروٹیکشن قانون پاکستان کی تاخیر ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ حکومت کو فوری اقدامات اٹھانے چاہییں تاکہ شہریوں کا ڈیٹا محفوظ رہے۔