اسلام آباد میں ڈینگی کے 25 نئے کیسز رپورٹ، 14 مریض اسپتال میں زیر علاج
اسلام آباد میں ڈینگی کے نئے کیسز رپورٹ: شہری اور دیہی علاقوں میں تشویشناک صورتحال
اسلام آباد میں ایک بار پھر ڈینگی وائرس کی لہر سر اٹھا رہی ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق 25 نئے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے 14 مریض اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جبکہ باقی افراد کو گھر میں آئسولیشن میں رکھا گیا ہے۔ محکمہ صحت، ضلعی انتظامیہ اور ڈینگی سرویلنس ٹیمیں متحرک ہو چکی ہیں، لیکن خطرہ اب بھی برقرار ہے۔
شہری اور دیہی علاقوں میں پھیلاؤ
رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے دیہی اور شہری علاقوں دونوں سے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں:
دیہی علاقے: 18 کیسز
شہری علاقے: 7 کیسز
یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں کہ دیہی علاقے اس بار زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جہاں عمومی طور پر صفائی، نکاسی آب، اور آگاہی کی کمی زیادہ ہوتی ہے۔
متاثرہ علاقے اور کیسز کی تفصیل
محکمہ صحت کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق، ڈینگی کے کیسز اسلام آباد کے مختلف علاقوں سے رپورٹ ہوئے جن میں درج ذیل مقامات شامل ہیں:
بھارہ کہو: 8 کیسز
سوہان: 4 کیسز
سیکٹر G-5: 2 کیسز
سیکٹر G-13، G-6، I-8، I-9: 1،1 کیس
علی پور، کورال، روات، سہالہ، ترلائی، ترنول، H-13: ہر ایک سے 1 کیس
یہ پھیلاؤ کی وسعت ظاہر کرتا ہے کہ وائرس کسی ایک مخصوص علاقے تک محدود نہیں رہا، بلکہ پورے شہر میں خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔
ڈینگی سرویلنس ٹیموں کی سرگرمیاں
ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت کی مشترکہ کاوشوں کے تحت ڈینگی سرویلنس ٹیموں نے متاثرہ علاقوں کا فوری دورہ کیا۔ ان ٹیموں نے:
486 مقامات کا تفصیلی معائنہ کیا
15 مثبت ہاٹ اسپاٹس کی نشاندہی کی
ہاٹ اسپاٹس پر متعلقہ اسسٹنٹ کمشنرز کی زیر نگرانی کارروائی کی گئی
یہ اقدامات فوری ردعمل کا حصہ ہیں تاکہ وائرس کے پھیلاؤ کو مزید روکا جا سکے، تاہم صورتحال اب بھی مکمل کنٹرول میں نہیں۔
انسدادی اقدامات اور کارکردگی رپورٹ
ڈینگی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے بڑی سطح پر انسدادی سرگرمیاں کی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق:
40,000 سرگرمیاں ڈینگی سے بچاؤ کے تحت انجام دی گئیں
27 مریضوں کے گھروں میں خصوصی اسپرے کیا گیا
مریضوں کے گھروں کے اردگرد 1129 مکانات میں بھی اسپرے کیا گیا
176 مقامات پر فوگنگ (Fogging) کی گئی تاکہ مچھر کی افزائش روکی جا سکے
یہ اقدامات بلاشبہ قابلِ تعریف ہیں، لیکن ڈینگی جیسے تیزی سے پھیلنے والے وائرس کے لیے مزید پائیدار اقدامات کی ضرورت ہے۔
ڈینگی وائرس کی پیچیدگی اور خطرات
ڈینگی ایک وائرل انفیکشن ہے جو ایڈیز ایجپٹائی مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ مچھر خاص طور پر صاف پانی میں افزائش پاتا ہے اور صبح و شام کے اوقات میں زیادہ فعال ہوتا ہے۔
ڈینگی کی علامات میں شامل ہیں:
تیز بخار
شدید سردرد
آنکھوں کے پیچھے درد
پٹھوں اور جوڑوں کا درد
جلد پر سرخ دھبے
تشویشناک کیسز میں پلیٹلیٹس کی تعداد تیزی سے کم ہو جاتی ہے، جو جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے وقت پر تشخیص اور علاج نہایت اہم ہے۔
حکومتی اقدامات: کافی یا ناکافی؟
اگرچہ حکومت اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں، جیسے:
ہاٹ اسپاٹس کی نشاندہی
فوگنگ اور اسپرے مہمات
آگاہی مہمات
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات عارضی نوعیت کے ہیں۔ جب تک:
موسمی صفائی
نکاسی آب کے نظام کی بہتری
مستقل آگاہی مہمات
اور مکمل کمیونٹی شمولیت
نہ ہو، تب تک ڈینگی پر مکمل قابو پانا مشکل ہے۔
عوامی کردار: احتیاط، آگاہی اور ذمہ داری
ڈینگی کے خلاف جنگ صرف حکومت نہیں لڑ سکتی۔ عوام کی شمولیت نہایت ضروری ہے۔ ہر شہری کو درج ذیل احتیاطی تدابیر اپنانی چاہیے:
پانی جمع ہونے سے روکیں (پانی کی ٹینکیاں، گملے، ٹائر، کولر)
مچھروں سے بچاؤ کے لیے نیٹ یا ریپیلنٹ کا استعمال کریں
شام کے وقت پورے کپڑے پہنیں
اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف رکھیں
بخار کی صورت میں فوری ٹیسٹ کرائیں
ماہرین کی رائے
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں ڈینگی کا موجودہ پھیلاؤ قابلِ کنٹرول ہے اگر حکومتی ادارے اور عوام مشترکہ حکمتِ عملی اپنائیں۔
ایک ماہر صحت کا کہنا تھا:
"اگر عوام صرف 30 دن تک مسلسل احتیاطی تدابیر پر عمل کر لیں تو ہم ڈینگی کی زنجیر توڑ سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہر سال یہ مسئلہ واپس آتا ہے کیونکہ اقدامات وقتی ہوتے ہیں۔”
مستقبل کے لیے سفارشات
اسلام آباد میں ڈینگی کو کنٹرول کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات مستقبل کے لیے ناگزیر ہیں:
انسداد ڈینگی یونٹس کا قیام ہر یوسی کی سطح پر
ڈور ٹو ڈور آگاہی مہمات کا مستقل سلسلہ
سکولوں، کالجوں اور مساجد میں شعور بیداری کی کلاسز
صفائی مہمات میں کمیونٹی شمولیت
آن لائن ڈیش بورڈ کے ذریعے ڈینگی کیسز کی رپورٹنگ اور مانیٹرنگ
چوکنا رہنے کی ضرورت
اسلام آباد میں حالیہ ڈینگی کیسز کی تعداد کم ضرور ہے، لیکن وائرس کی منتقلی کی رفتار اور متاثرہ علاقوں کا دائرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اگر عوامی بیداری، حکومتی کارکردگی اور صحت کے اداروں کا تعاون مربوط انداز میں جاری رہا تو ہم ڈینگی کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں۔
لیکن اگر بے احتیاطی کی گئی، یا یہ سمجھا گیا کہ معاملہ ختم ہو گیا ہے تو وائرس ایک بار پھر پوری شدت سے پلٹ سکتا ہے۔
Comments 1