کے پی میں ڈینگی کیسز میں تیزی، صرف ایک دن میں 32 نئے مریض اسپتالوں میں داخل
خیبرپختونخوا میں ڈینگی وائرس ایک بار پھر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، اور اس وبائی مرض کے باعث اسپتالوں میں داخل ہونے والے مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ صوبائی محکمہ صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مزید 32 نئے مریضوں کو مختلف اسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے، جس کے بعد اسپتالوں میں زیر علاج مریضوں کی مجموعی تعداد 98 ہو گئی ہے۔
یہ صورتحال نہ صرف تشویش ناک ہے بلکہ اس بات کا اشارہ بھی دیتی ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ وبا بڑے پیمانے پر پھیل سکتی ہے۔ اس وقت خیبرپختونخوا میں ڈینگی کے ایکٹو کیسز کی تعداد 276 تک پہنچ چکی ہے، جو کہ موسم کی تبدیلی اور صفائی ستھرائی کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔
متاثرہ اضلاع اور اسپتالوں کی صورتحال
محکمہ صحت کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق، خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں قائم سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ مریض چارسدہ اور مردان کے اسپتالوں میں داخل ہوئے ہیں:
ڈی ایچ کیو اسپتال چارسدہ اور ایم ایم سی مردان میں 21 مریض داخل کیے گئے ہیں۔
پشاور کے تین بڑے اسپتالوں میں بھی مریضوں کی آمد جاری ہے:
- ایچ ایم سی میں 11 مریض،
- ایل آر ایچ میں 7 مریض،
- اور کے ٹی ایچ میں 5 مریض زیر علاج ہیں۔
- دیگر اسپتالوں کی صورتحال کچھ یوں ہے:
- ڈی ایچ کیو ہری پور میں 17 مریض،
- ڈی ایچ کیو باجوڑ میں 6 مریض،
- ایوب ٹیچنگ اسپتال (اے ٹی ایچ) ایبٹ آباد میں 3 مریض،
- باچا خان میڈیکل کمپلیکس صوابی میں 5 مریض،
- جبکہ مفتی محمود میموریل اسپتال ڈی آئی خان میں 2 مریض داخل ہیں۔
یہ اعداد و شمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ڈینگی کا پھیلاؤ صرف ایک یا دو اضلاع تک محدود نہیں رہا، بلکہ صوبے کے مختلف علاقوں میں وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔
چارسدہ سب سے زیادہ متاثرہ ضلع
صوبے میں اب تک ڈینگی کے تصدیق شدہ کیسز کی مجموعی تعداد 2880 ہو چکی ہے، جن میں سب سے زیادہ کیسز ضلع چارسدہ سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ صرف ستمبر کے مہینے میں چارسدہ سے 256 کیسز کی تصدیق ہوئی، جو کہ ایک خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔
چارسدہ میں ڈینگی کیسز کی بڑی تعداد نے صحت کے ماہرین کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہاں ڈینگی کا تیزی سے پھیلاؤ ناقص صفائی، پانی کے ذخائر میں مچھر کی افزائش، اور احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔
ڈینگی سے تاحال کوئی موت رپورٹ نہیں ہوئی
خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اب تک خیبرپختونخوا میں ڈینگی وائرس سے کوئی موت واقع نہیں ہوئی۔ تاہم، ماہرین صحت خبردار کر رہے ہیں کہ اگر موجودہ رجحان برقرار رہا تو صورتحال جلد قابو سے باہر ہو سکتی ہے، اور ہلاکتوں کا خدشہ بڑھ جائے گا۔
ڈینگی وائرس کی شدت مریض کی قوت مدافعت، بیماری کی بروقت تشخیص اور علاج پر منحصر ہوتی ہے۔ صوبے میں صحت کی سہولیات کی دستیابی اور بروقت اقدامات کی بدولت تاحال کسی جانی نقصان سے بچا جا سکا ہے، لیکن خطرہ بدستور موجود ہے۔
ماہرین کی رائے اور تجاویز
طبی ماہرین کے مطابق، ڈینگی مچھر (Aedes aegypti) صاف پانی میں پیدا ہوتا ہے اور دن کے وقت کاٹتا ہے، جس کے باعث وائرس متاثرہ شخص میں بخار، جوڑوں میں درد، پٹھوں کی کمزوری، اور خون کے خلیات میں کمی جیسے اثرات پیدا کرتا ہے۔ اگر اس کا بروقت علاج نہ کیا جائے تو یہ مرض جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ماہرین تجویز دیتے ہیں کہ:
- گھروں اور آس پاس کے علاقوں میں پانی جمع نہ ہونے دیا جائے۔
- پانی کے برتن، ٹینکیاں اور کولرز کو ڈھانپ کر رکھا جائے۔
- مچھر مار اسپرے اور لوشن کا استعمال کیا جائے۔
- بچوں کو مکمل بازو والے کپڑے پہنائے جائیں۔
بخار کی صورت میں فوری طور پر اسپتال سے رجوع کیا جائے، تاکہ ڈینگی کی تشخیص ہو سکے۔
حکومتی اقدامات اور چیلنجز
صوبائی حکومت اور محکمہ صحت نے ڈینگی کی روک تھام کے لیے چند اہم اقدامات کیے ہیں، جن میں اسپتالوں میں خصوصی وارڈز کا قیام، تشخیصی کٹس کی فراہمی، اور مچھر مار اسپرے شامل ہیں۔ لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ان اقدامات میں تیزی اور وسعت کی شدید ضرورت ہے۔
دیہی علاقوں میں لوگوں میں ڈینگی سے متعلق شعور کی کمی، اور صفائی کے ناقص انتظامات وبا کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ متعدد اضلاع میں اسپتالوں کو مریضوں کے رش، کٹس کی قلت، اور اسٹاف کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
عوامی کردار اور احتیاطی تدابیر
ڈینگی سے بچاؤ صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ عوام کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ہر فرد کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر، گلی، اور محلے کو صاف رکھے، اور جہاں پانی جمع ہونے کا خدشہ ہو، اسے فوری صاف کرے۔
میڈیا، تعلیمی ادارے، اور مقامی تنظیمیں عوام میں آگاہی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ خصوصی طور پر دیہی علاقوں میں شعور اجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
خیبرپختونخوا میں ڈینگی وائرس کی حالیہ لہر ایک بار پھر صحت کے شعبے کے لیے چیلنج بن چکی ہے۔ اسپتالوں میں مریضوں کی بڑھتی تعداد، متاثرہ اضلاع کا دائرہ کار، اور عوامی لاپروائی ایسے عوامل ہیں جو صورت حال کو مزید بگاڑ سکتے ہیں۔ تاہم، اگر حکومت، صحت کے ادارے، اور عوام مشترکہ طور پر مؤثر اقدامات کریں، تو اس وبا پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے، لیکن اس کے لیے آگاہی، صفائی، احتیاط اور بروقت طبی سہولیات کی فراہمی لازمی ہے۔ خیبرپختونخوا کو اس وقت ایک مربوط اور منظم حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ عوام کی صحت کو محفوظ بنایا جا سکے اور ایک بڑی انسانی بحران سے بچا جا سکے۔
Comments 1