ڈینگی کے کیسز میں اضافہ — موسم کی تبدیلی کے ساتھ خطرناک صورتحال
موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ تشویش ناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ بارشوں اور بدلتے درجہ حرارت نے مچھروں کی افزائش کے لیے سازگار ماحول پیدا کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں مختلف شہروں میں درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں افراد ڈینگی وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔
محکمۂ صحت کے مطابق رواں ہفتے کے دوران خیبرپختونخوا، سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے متعدد اضلاع سے ڈینگی کے کیسز میں اضافہ رپورٹ کیا گیا ہے، جن میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقے مردان، کراچی، اسلام کوٹ، اور میرپورخاص ہیں۔
مردان میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ — دو افراد جاں بحق
خیبرپختونخوا کے ضلع مردان میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہو چکی ہے۔ محکمۂ صحت کے مطابق اب تک 270 سے زائد افراد میں ڈینگی وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے، جبکہ بدقسمتی سے دو مریض اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
ڈینگی کے کیسز میں اضافہ ہونے کی بنیادی وجوہات میں بارش کے بعد کھڑے پانی کے ذخائر، ناقص صفائی، اور مچھر دانیوں کے استعمال میں غفلت شامل ہیں۔ مردان کے اسپتالوں میں ڈینگی کے مریضوں کی آمد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جس کے باعث ڈینگی وارڈز میں گنجائش ختم ہونے لگی ہے۔
سندھ میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ — تھرپارکر اور اسلام کوٹ متاثر
سندھ کے ضلع تھرپارکر کے شہر اسلام کوٹ میں ڈینگی کے 321 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔ محکمہ صحت سندھ کے مطابق بارشوں کے بعد کھڑے پانی میں مچھر کی افزائش تیزی سے بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے ڈینگی کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اسلام کوٹ، مٹھی اور نگرپارکر کے اسپتالوں میں خصوصی ڈینگی وارڈز قائم کیے گئے ہیں۔ تاہم، ماہرین صحت کے مطابق اصل مسئلہ گاؤں اور دیہی علاقوں میں ہے، جہاں طبی سہولیات محدود ہیں۔
میرپورخاص اور دیگر اضلاع میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ
سندھ کے میرپورخاص ڈویژن میں بھی ڈینگی کے کیسز میں اضافہ مسلسل جاری ہے۔ صورتحال کے پیشِ نظر ضلعی انتظامیہ نے ڈی ایچ کیو اسپتالوں میں خصوصی ڈینگی وارڈ قائم کر دیے ہیں۔
ڈاکٹروں کے مطابق گزشتہ دو ہفتوں کے دوران میرپورخاص، عمرکوٹ اور سانگھڑ میں ڈینگی کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ شہری علاقوں کے ساتھ ساتھ دیہی آبادی بھی اس وائرس کی لپیٹ میں آ رہی ہے، جس سے عوام میں خوف و ہراس بڑھ رہا ہے۔
ڈینگی کے کیسز میں اضافہ — ماہرین صحت کی وارننگ
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈینگی وائرس عام طور پر ایڈیز ایجپٹائی (Aedes Aegypti) مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، جو صبح اور شام کے وقت زیادہ فعال ہوتا ہے۔
موسمِ خزاں کے آغاز کے ساتھ درجہ حرارت میں کمی آنے پر یہ مچھر تیزی سے افزائش پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس موسم میں ہمیشہ ڈینگی کے کیسز میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
ڈاکٹرز کے مطابق اگر بروقت احتیاط نہ کی جائے تو یہ وائرس بخار، جسم میں درد، خون کی کمی، اور بعض صورتوں میں موت کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
ڈینگی کے کیسز میں اضافہ روکنے کے لیے حکومتی اقدامات
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ڈینگی کے کیسز میں اضافہ روکنے کے لیے مختلف اقدامات کا اعلان کیا ہے۔
شہری حکومتوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ گلیوں، نالیوں، اور پارکوں میں کھڑے پانی کو فوری صاف کیا جائے۔
اسکولوں، کالجوں اور دفاتر میں آگاہی مہم شروع کی جا رہی ہے تاکہ لوگ حفاظتی اقدامات اختیار کریں۔
اسپتالوں میں ڈینگی ٹیسٹ اور علاج کے لیے خصوصی کاؤنٹرز قائم کیے گئے ہیں۔
تاہم، زمینی حقائق کے مطابق ابھی تک یہ اقدامات مکمل طور پر مؤثر ثابت نہیں ہوئے، کیونکہ کئی علاقوں میں صفائی کی صورتحال بدستور خراب ہے، جس کی وجہ سے ڈینگی کے کیسز میں اضافہ جاری ہے۔
راولپنڈی میں ڈینگی کے 16 نئے کیسز رپورٹ، 49 مریض اسپتالوں میں زیر علاج
عوام کے لیے احتیاطی تدابیر
ڈینگی وائرس سے بچنے کے لیے عوام کو درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں تاکہ ڈینگی کے کیسز میں اضافہ مزید نہ ہو:
اپنے گھروں اور آس پاس کے علاقوں میں کھڑے پانی کو خشک رکھیں۔
مچھر مار اسپرے کا باقاعدہ استعمال کریں۔
لمبے کپڑے پہنیں تاکہ جلد کم ظاہر ہو۔
مچھر دانی یا ریپلنٹ لوشن کا استعمال کریں۔
پانی کے برتن، بالٹی یا کولر کو ڈھانپ کر رکھیں۔
بخار یا جسم میں درد کی صورت میں فوراً قریبی اسپتال جائیں۔
ڈینگی کے کیسز میں اضافہ — عوامی شعور کی ضرورت
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عوام تعاون کریں تو ڈینگی کے کیسز میں اضافہ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
ڈینگی کی روک تھام حکومت اور عوام دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔
گھروں کی صفائی، ذاتی احتیاط، اور مچھر کی افزائش کے خاتمے کے ذریعے ہی ہم اس خطرناک وائرس سے بچ سکتے ہیں۔
اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں ڈینگی کے کیسز میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔
اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے ہفتوں میں صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
عوام کو چاہیے کہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں، صاف ستھرا ماحول برقرار رکھیں، اور کسی بھی مشتبہ علامت کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
Comments 1