شہر میں ڈینگی مریضوں کی تعداد بڑھ گئی، صورتحال خطرناک
شہر میں ڈینگی بخار ایک بار پھر بے قابو ہو گیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، شہر کے سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی کے 413 مریض زیر علاج ہیں جبکہ نجی اسپتالوں، کلینکس اور لیبارٹریز میں یہ تعداد 400 سے تجاوز کر چکی ہے۔ ماہرین صحت اور محکمہ انسدادِ وبائی امراض نے آئندہ ڈیڑھ ماہ کو ڈینگی کے پھیلاؤ کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیا ہے۔
یہ محض ایک موسمی بیماری کا معاملہ نہیں، بلکہ ایک سنگین صحت عامہ کا بحران بنتا جا رہا ہے، جس میں صرف حکومتی ادارے ہی نہیں بلکہ شہری غفلت اور ناقص نگرانی بھی برابر کی شریک ہیں۔
ڈینگی کنٹرول مہم: حقائق اور اعداد و شمار
انسداد ڈینگی مہم کے تحت شہر بھر میں:
کل 49 لاکھ 82 ہزار 897 گھروں کو چیک کیا گیا۔
ان میں سے 1 لاکھ 30 ہزار 336 گھروں سے ڈینگی لاروا برآمد ہوا۔
یہ اعداد و شمار بذات خود ایک خطرناک صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہر 38 واں گھر ڈینگی لاروا سے متاثر ہے۔
مزید یہ کہ:
ہاٹ اسپاٹ ایریاز سے 17,862 مقامات پر ڈینگی لاروا پایا گیا۔
جبکہ کلئیرڈ ایریاز (جہاں سے پہلے لاروا ختم کرنے کی رپورٹ دی گئی تھی) میں بھی تھرڈ پارٹی سروے کے دوران 113 مقامات پر دوبارہ ڈینگی لاروا پایا گیا۔
یہ بات واضح کرتی ہے کہ انسدادِ ڈینگی کی رپورٹس اور عملی اقدامات میں شدید فرق ہے۔
بدانتظامی اور کوتاہی: ورکرز کی معطلی
ڈینگی کی شدت میں اضافے کے ساتھ ہی محکمانہ بدانتظامی بھی سامنے آئی ہے۔ متعلقہ حکام کے مطابق:
13 ڈینگی ورکرز کو بغیر اطلاع غیر حاضر رہنے پر معطل کر دیا گیا۔
3 ورکرز کو جھوٹی رپورٹس دینے پر بھی معطل کیا گیا۔
یہ غفلت اس وقت شدید نقصان دہ ہو جاتی ہے جب ایک جان لیوا بیماری شہر میں پھیل رہی ہو اور اس سے نمٹنے والے خود اپنی ذمے داریوں سے غافل ہوں۔
انتظامیہ کی کارروائیاں: مقدمات، سیلنگ، چالان اور جرمانے
انسداد ڈینگی آپریشن کے تحت حکومتی اداروں نے متعدد سخت اقدامات کیے ہیں جن میں:
3894 مقدمات ڈینگی لاروا کی موجودگی پر درج کیے گئے۔
1722 پراپرٹیز کو سیل کیا گیا۔
3304 چالان جاری کیے گئے۔
مجموعی طور پر 97 لاکھ 84 ہزار روپے کے جرمانے کیے گئے۔
یہ کارروائیاں قابلِ ستائش ضرور ہیں، لیکن یہ بھی سوال اُٹھتا ہے کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں خلاف ورزیاں سامنے آئیں تو نگرانی کا نظام پہلے کہاں تھا؟ اور کیا آئندہ یہ مسئلہ صرف جرمانوں سے حل ہوگا یا اس کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے؟
ماہرین کی رائے: آئندہ ڈیڑھ ماہ کیوں خطرناک ہے؟
ڈینگی ایک وائرل انفیکشن ہے جو ایڈیز ایجپٹائی مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے۔ یہ مچھر عمومی طور پر صاف پانی میں افزائش پاتا ہے اور اس کی سرگرمی صبح اور شام کے وقت بڑھ جاتی ہے۔
ماہرین کے مطابق:
ستمبر تا نومبر کا عرصہ ڈینگی کے لیے انتہائی موزوں موسم فراہم کرتا ہے، کیونکہ درجہ حرارت 25 سے 30 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔
مون سون کے بعد جگہ جگہ جمع شدہ پانی، ٹوٹے برتن، پانی کی ٹینکیاں، گملے، کولر، اور نالیوں میں کھڑا پانی لاروا کی افزائش کے لیے مثالی ماحول بناتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آنے والے 45 دن ڈینگی کے پھیلاؤ کے لیے انتہائی حساس اور خطرناک قرار دیے گئے ہیں۔
عوامی غفلت: صفائی نصف ایمان کہاں گیا؟
جہاں حکومت پر تنقید بنتی ہے، وہیں شہریوں کو بھی اپنی ذمے داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق:
اکثر گھروں میں چھتوں پر پانی جمع تھا۔
کولرز اور گملے صاف کیے بغیر رکھے گئے تھے۔
زیر تعمیر عمارتیں ڈینگی کے لاروا کی آماجگاہ بن چکی ہیں۔
ڈینگی کے خلاف جنگ صرف حکومت کی نہیں بلکہ ہر شہری کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ جب تک عوام خود احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کریں گے، تب تک کوئی مہم کامیاب نہیں ہو سکتی۔
کیا کیا جائے؟ — حل اور تجاویز
ڈینگی کی موجودہ لہر کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری، درمیانی اور طویل المدتی اقدامات ضروری ہیں۔
فوری اقدامات:
- تمام ہاٹ اسپاٹ ایریاز میں روزانہ بنیادوں پر فوگنگ اور اسپرے۔
- ڈینگی مریضوں کے لیے علیحدہ وارڈز کی دستیابی۔
- تمام سرکاری و نجی اسپتالوں کو 24/7 الرٹ موڈ پر رکھنا۔
- اسکولوں اور دفاتر میں ڈینگی سے بچاؤ کی آگاہی مہم۔
درمیانی مدت کے اقدامات:
- ہر وارڈ میں علاقائی ڈینگی کمیٹیاں تشکیل دینا۔
- کمیونٹی مانیٹرنگ سسٹم متعارف کروانا۔
زیر تعمیر عمارتوں کی نگرانی اور ذمہ داران پر جرمانے۔
طویل المدتی اقدامات:
- نکاسی آب کا بہتر نظام۔
- مستقل بنیادوں پر ماحولیاتی صفائی۔
ڈینگی کنٹرول بل کا نفاذ، جس میں شہریوں کو لازمی صفائی کا پابند بنایا جائے۔
اب بھی وقت ہے!
شہر میں ڈینگی کی خطرناک صورتحال ہماری صحت، نظام اور شعور تینوں پر سوالیہ نشان ہے۔ اسپتالوں میں مریضوں کا بڑھتا ہوا رش، گھروں میں لاروا کی موجودگی، اداروں کی غفلت اور شہریوں کی بے حسی — یہ سب مل کر ڈینگی کو ایک ناقابلِ کنٹرول وبا میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
تاہم، اگر حکومت، ادارے، میڈیا، ڈاکٹرز اور عوام سب ایک پلیٹ فارم پر آ جائیں اور اجتماعی طور پر مؤثر حکمت عملی اختیار کریں تو ڈینگی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ یہ معاملہ صرف جرمانے، مقدمے اور نوٹسز تک محدود نہ رہے بلکہ شعور، عمل اور احتیاط کی حقیقی مہم بنے۔











