ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی راولپنڈی میں کرپشن اور غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف
راولپنڈی کی ضلعی صحت اتھارٹی ایک بار پھر خبروں کی زینت بنی ہے، لیکن اس بار وجہ نہ کوئی کامیاب منصوبہ ہے اور نہ ہی عوامی خدمت کا اعتراف۔ بلکہ کرپشن، بدانتظامی، ناقص کارکردگی، اور غیرقانونی بھرتیوں جیسے سنگین الزامات ہیں جنہوں نے اس ادارے کو ایک بحران کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔ موجودہ چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) ڈاکٹر احسان غنی کی قیادت میں انکشافات اور کارروائیاں تو ہو رہی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اقدامات دیر سے کیوں؟ اور کیا ان کے پیچھے کوئی سیاسی یا ذاتی مفادات تو کارفرما نہیں؟
16 ملازمین برطرف، 200 مزید کی باری؟
ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی راولپنڈی میں کرپشن، غیر حاضری، بدتمیزی، بدعنوانی، اور ناقص کارکردگی پر اب تک 16 ملازمین کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ تاہم، کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ذرائع کے مطابق مزید 200 ملازمین کی برطرفی کی فہرست تیار ہو چکی ہے اور آئندہ دنوں میں ان کے خلاف بھی کارروائی متوقع ہے۔
سی ای او ڈاکٹر احسان غنی کے مطابق، کئی ملازمین نے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مجرمانہ غفلت برتی۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنی ڈیوٹیوں سے غیر حاضر تھے بلکہ بعض کی جانب سے کرپشن، رشوت، اور جعلی بھرتیوں میں ملوث ہونے کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔
مالی سزا اور تنبیہات
ڈاکٹر احسان غنی نے مزید بتایا کہ ناقص کارکردگی پر 14 ملازمین کی ایک ماہ کی تنخواہ جرمانے کے طور پر کاٹ لی گئی ہے جبکہ 3 ملازمین کے انکریمنٹ روک دیے گئے ہیں۔ یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ اتھارٹی نے اب بدعنوانی اور ناقص کام کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا ہے، مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سب محض "چہرہ بچانے” کی کوشش ہے، اصل تبدیلی تب آئے گی جب ذمہ داران کو قانونی سزا ملے گی۔
سی ای او کے خلاف 2 کروڑ روپے کا ہرجانہ
جہاں موجودہ سی ای او سخت اقدامات کر رہے ہیں، وہیں سابق سی ای او ڈاکٹر انصر اسحاق نے ان پر 2 کروڑ روپے کا ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا ہے۔ یہ دعویٰ دراصل ایک کیس (جوہر عقیل کیس) کی رپورٹ میں دیے گئے مبینہ "منفی ریمارکس” کی بنیاد پر دائر کیا گیا ہے۔
یہ واقعہ اس ادارے کی اندرونی کشمکش اور طاقت کی جنگ کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک جانب کرپشن کے خلاف مہم جاری ہے، تو دوسری جانب سابق افسران اپنے عہدے اور ساکھ کے دفاع میں عدالتوں کا رخ کر رہے ہیں۔
غیر قانونی بھرتیوں کا بھانڈا پھوٹ گیا
اس سب ہنگامے کے دوران ایک اور بڑا انکشاف سامنے آیا ہے — غیر قانونی بھرتیوں کا اسکینڈل۔
ذرائع کے مطابق:
- 1500 سینٹری پیٹرولرز
- 62 اینٹامالوجسٹ (مچھر مار ماہرین)
کو بغیر کسی مناسب طریقہ کار، شفافیت یا میرٹ کے بھرتی کیا گیا۔ یہ بھرتیاں گزشتہ مالی سال میں کی گئیں اور ان کے لیے جو انٹرویو اور سلیکشن کی تاریخیں طے کی گئیں، وہ بھی حیران کن طور پر جلد بازی میں کی گئیں۔
مثال کے طور پر:
اینٹامالوجسٹ کی بھرتی کے لیے انٹرویو یکم اپریل کو ہوئے۔
سلیکشن کمیٹی جولائی میں بنی۔
صرف ایک روز بعد 1500 افراد کو تقرر نامے جاری کر دیے گئے۔
یہ تمام عمل اتنی تیزی سے ہوا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے تمام کچھ پہلے سے طے شدہ تھا، اور صرف ضابطے کی کارروائی پوری کرنے کے لیے دکھاوے کے اقدامات کیے گئے۔
محکمہ صحت پنجاب خاموش؟
ان تمام انکشافات کے بعد محکمہ صحت پنجاب نے تین دن کے اندر رپورٹ طلب کی تھی، لیکن تین ماہ گزرنے کے باوجود نہ تو انکوائری مکمل ہو سکی اور نہ ہی کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی۔ یہ سستی، غفلت یا شاید دانستہ تاخیر ہے؟
انکوائری آفیسر ڈاکٹر معیز منظور کا کہنا ہے کہ وہ "سیلاب ڈیوٹی” پر ہیں، اور فارغ ہو کر انکوائری مکمل کریں گے۔ تاہم، یہ بیان بھی شک و شبہات کو جنم دیتا ہے کیونکہ انکوائری کے لیے پہلا مراسلہ 24 اکتوبر 2024 کو، دوسرا 8 جنوری 2025 کو، اور تیسرا 16 اپریل 2025 کو بھیجا گیا تھا۔ یہ تمام تواریخ اس بات کی غماز ہیں کہ معاملے کو جان بوجھ کر طول دیا جا رہا ہے۔
تحقیقات کی راہ میں رکاوٹیں
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ انکوائری کو جان بوجھ کر تاخیر کا شکار کیا جا رہا ہے تاکہ معاملہ "ٹھنڈا” ہو جائے۔ اکثر ایسے کیسز میں دیکھا گیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شواہد مٹتے جاتے ہیں، فائلیں دب جاتی ہیں، اور مجرم صاف بچ نکلتے ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی جیسے ادارے میں اگر اس سطح پر کرپشن، جعلسازی، اور اقرباپروری ہو رہی ہو، تو عام عوام کی صحت، صفائی، اور فلاح کا کیا حال ہوگا — اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
عوامی اعتماد کا بحران
جب ادارے جن کا کام صحت اور صفائی کو یقینی بنانا ہو، خود اندر سے بیمار ہوں، تو پھر عوامی اعتماد کا بحران پیدا ہونا لازمی ہے۔ راولپنڈی کے شہری پہلے ہی صفائی، مچھر مار مہمات، اور بنیادی صحت کی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں۔ اب جب کہ یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ سینٹری ورکرز اور اینٹامالوجسٹ بھی جعلی طریقے سے بھرتی کیے گئے، تو یہ صورتحال مزید خطرناک ہو جاتی ہے۔
حل کیا ہے؟
شفاف انکوائری:
ایک خود مختار اور غیر جانبدار کمیٹی کی جانب سے فوری تحقیقات ضروری ہیں، جن کی رپورٹ عوامی سطح پر جاری کی جائے۔
عدالتی مداخلت:
چونکہ معاملہ مالی اور قانونی بے ضابطگیوں کا ہے، اس میں ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کی مداخلت ایک ممکنہ حل ہو سکتی ہے۔
تمام بھرتیوں کا ازسرنو جائزہ:
جعلی بھرتیوں کو منسوخ کر کے نئی بھرتیاں میرٹ پر کی جائیں۔
سی ای او اور متعلقہ افسران کا آڈٹ:
سابق و موجودہ افسران کا مالی و انتظامی آڈٹ کیا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ اصل ذمہ دار کون ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی راولپنڈی کا حالیہ بحران صرف ایک ادارے کی ناکامی نہیں، بلکہ یہ اس پورے نظام کی بیماری کو ظاہر کرتا ہے جو کاغذوں میں تو شفاف ہے، لیکن حقیقت میں کرپشن، اقرباپروری، اور غفلت کا شکار ہے۔ اگر وقت پر سخت اور شفاف اقدامات نہ کیے گئے، تو یہ صرف راولپنڈی ہی نہیں، بلکہ پورے پنجاب کے لیے ایک خطرہ بن سکتا ہے۔

