امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل کو انتباہ — ’مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام پر امریکا کی حمایت ختم ہو جائے گی‘
واشنگٹن (رائیس الاخبار) — امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو واضح طور پر خبردار کیا ہے کہ اگر اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام کرنے کی کوشش ہوتی ہے تو اسے امریکا کی حمایت کھو دینی پڑے گی۔
یہ بیان ٹرمپ نے ٹائم میگزین کو دیے گئے ایک خصوصی ٹیلی فونک انٹرویو میں دیا، جو 15 اکتوبر کو ریکارڈ کیا گیا اور بعد ازاں شائع ہوا۔
ٹائم میگزین کے مطابق، امریکی صدر کے اس بیان کے فوراً بعد نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے بھی اسرائیل کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام نہ صرف امن عمل کو نقصان پہنچائے گا بلکہ امریکا کی مشرقِ وسطیٰ پالیسی پر بھی سنگین اثر ڈالے گا۔
’ایسا نہیں ہو سکتا، میں نے عرب ممالک سے وعدہ کیا ہے‘ — ٹرمپ
ٹرمپ نے اپنے انٹرویو میں کہا:
“ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ میں نے عرب ممالک سے وعدہ کیا ہے۔ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ ہمیں ان ممالک کی زبردست حمایت حاصل ہے۔ اگر اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام کی کوشش کی تو وہ امریکا کی حمایت کھو دے گا۔”
امریکی صدر کے اس بیان نے نہ صرف اسرائیل میں سیاسی ہلچل پیدا کر دی بلکہ عالمی سفارتی حلقوں میں بھی بحث چھیڑ دی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹرمپ کا یہ بیان اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت کے لیے واضح پیغام ہے کہ واشنگٹن اب اندھا دھند حمایت کا رویہ اختیار نہیں کرے گا۔
’سعودی عرب رواں سال کے اختتام تک معاہدہ ابراہیمی میں شامل ہو جائے گا‘
ٹرمپ نے انٹرویو کے دوران مشرق وسطیٰ میں ہونے والی حالیہ تبدیلیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ سعودی عرب رواں سال کے اختتام تک ’معاہدہ ابراہیمی‘ (Abraham Accords) میں شامل ہو جائے گا، جس کا مقصد اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا ہے۔
انہوں نے کہا:
“ہاں، میں سمجھتا ہوں کہ وہ شامل ہوگا، بالکل ہوگا۔ ان کے پاس دو بڑے مسائل تھے، غزہ اور ایران، اور اب یہ دونوں مسائل نہیں رہے۔”
یہ بیان انہوں نے اس پس منظر میں دیا جب اسرائیل نے حال ہی میں غزہ پر فوجی کارروائی کی تھی اور امریکا نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے کچھ سخت اقدامات کیے تھے۔
’فلسطینی رہنما مروان برغوثی کی رہائی پر غور کیا جائے گا‘
ٹرمپ نے انٹرویو میں مزید کہا کہ وہ فلسطینی رہنما مروان برغوثی کی ممکنہ رہائی سے متعلق فیصلہ کریں گے، جو مستقبل کے کسی امن معاہدے کا حصہ بن سکتا ہے۔
مروان برغوثی فلسطینی تحریکِ فتح کے ایک معروف رہنما ہیں، جو اسرائیل میں قید ہیں۔
مصری سرکاری میڈیا کے مطابق، حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے غزہ معاہدے میں ان فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر بھی بات چیت ہو رہی ہے جن میں برغوثی شامل ہیں۔
امریکا کی ثالثی اور اسرائیلی قانون سازی کا تنازع
ٹرمپ کے بیان سے چند روز قبل، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے تین روزہ دورۂ اسرائیل مکمل کیا تھا، جبکہ وزیرِ خارجہ مارکو روبیو بھی اسی دوران اسرائیل پہنچے۔
ان دونوں اعلیٰ حکام کا مقصد رواں ماہ کے آغاز میں طے پانے والی نازک غزہ جنگ بندی کو مستحکم بنانا تھا۔
تاہم جیسے ہی وہ روانہ ہوئے، اسرائیلی پارلیمان (کنیسٹ) نے دو متنازعہ بلز منظور کیے جو اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
ان بلز کے تحت مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیلی قانون نافذ کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو اس علاقے کے باقاعدہ انضمام کے مترادف ہے — وہی علاقہ جسے فلسطینی اپنی مستقبل کی آزاد ریاست کا حصہ سمجھتے ہیں۔
بدھ کے روز اسرائیلی پارلیمان نے ان بلز کی ابتدائی منظوری دے دی، جس کے بعد عالمی سطح پر ردِعمل دیکھنے میں آیا۔
امریکی قیادت کا اسرائیل کو انتباہ
نائب صدر جے ڈی وینس نے اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام کے اقدام کو
“انتہائی احمقانہ سیاسی تماشہ”
قرار دیا اور کہا کہ “مجھے ذاتی طور پر اس سے ناگواری محسوس ہوتی ہے۔”
واشنگٹن سے روانگی سے قبل وزیرِ خارجہ روبیو نے بھی اسرائیلی حکام کو خبردار کیا کہ مغربی کنارے کے انضمام کی کوششیں غزہ میں جنگ بندی کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں اور علاقائی استحکام کو متاثر کریں گی۔
انہوں نے کہا:
“صدر ٹرمپ اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام کی مخالفت کرتے ہیں، اور یہ کبھی نہیں ہوگا۔ یہ ان کی مستقل پالیسی ہے، اور یہی امریکا کا اصولی مؤقف رہے گا۔”
اسرائیلی سیاست میں ہلچل — نیتن یاہو پر دباؤ بڑھ گیا
ٹرمپ کے بیان نے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کے لیے سیاسی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ ان کی حکومت پہلے ہی داخلی دباؤ اور بین الاقوامی تنقید کا سامنا کر رہی ہے۔
نیتن یاہو کے اتحادی حلقے اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام کو “اسرائیل کی سلامتی کے لیے ضروری” قرار دیتے ہیں، جبکہ بائیں بازو اور اعتدال پسند جماعتیں اسے “امن کے لیے زہر قاتل” سمجھتی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹرمپ کی یہ کھلی وارننگ نیتن یاہو حکومت کے لیے ایک سفارتی جھٹکا ہے، کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ واشنگٹن اب بھی اسرائیلی پالیسیوں کا اندھا دھند دفاع کرے گا۔
عرب دنیا کا ردِعمل
امریکی صدر کے بیان کے بعد عرب ممالک نے اس اقدام کو سراہا۔ سعودی عرب، مصر، اردن اور متحدہ عرب امارات کے سفارتی ذرائع کے مطابق، ٹرمپ کا یہ بیان خطے میں امن عمل کی بحالی کے لیے اہم پیش رفت ہے۔
سعودی حکام کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام کی راہ اپنائی تو وہ ’معاہدہ ابراہیمی‘ کے عمل کو روک سکتے ہیں، جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا ایک تاریخی قدم سمجھا جاتا ہے۔
اردن نے بھی خبردار کیا کہ مغربی کنارے کا انضمام ’امن معاہدے کی مکمل خلاف ورزی‘ ہوگا۔
فلسطینی قیادت کی جانب سے محتاط امید
فلسطینی صدر محمود عباس کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ “اگر ٹرمپ واقعی انضمام کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ فلسطینی عوام کے لیے ایک مثبت اشارہ ہوگا، تاہم ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ بیان عملی پالیسی میں کب اور کیسے بدلتا ہے۔”
غزہ میں حماس کے ترجمان نے بھی کہا کہ “امریکی صدر کے الفاظ اس وقت تک معنی نہیں رکھتے جب تک امریکا اسرائیل کو عملی طور پر باز رکھنے کے لیے اقدامات نہیں کرتا۔”
پاکستان کا ردِعمل — اسرائیل کی ’نام نہاد خودمختاری‘ کی مذمت
پاکستان نے اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر اپنی نام نہاد ’خود مختاری‘ کو توسیع دینے کی کوششوں کی شدید مذمت کی ہے۔
دفترِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف بین الاقوامی قانون بلکہ فلسطینی عوام کے بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ترجمان دفترِ خارجہ نے کہا:
“پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت، ان کی ریاست کے قیام اور 1967 کی سرحدوں پر مبنی دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہے گا۔”
امریکی پالیسی میں تبدیلی یا انتخابی حکمتِ عملی؟
امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹرمپ کا یہ بیان ایک انتخابی حکمتِ عملی بھی ہو سکتا ہے۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ 2026 کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل مشرقِ وسطیٰ میں ایک ’امن کے معمار‘ کی شبیہہ بحال کرنا چاہتے ہیں، تاکہ داخلی طور پر سیاسی پوائنٹس حاصل کر سکیں۔
تاہم بعض مبصرین کے مطابق، یہ موقف امریکا کی خارجہ پالیسی میں عملی تبدیلی کا اشارہ بھی ہو سکتا ہے، جو گزشتہ دو دہائیوں سے اسرائیل کے غیر مشروط دفاع پر مبنی تھی۔
ایک نئی سمت یا پرانا تضاد؟
ڈونلڈ ٹرمپ کا اسرائیل کے بارے میں یہ تازہ بیان مشرقِ وسطیٰ میں نئی سفارتی صف بندیوں کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اگر امریکا واقعی (israel annex gaza)اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمامی عزائم کے خلاف پالیسی اپناتا ہے تو یہ ایک اہم موڑ ہوگا، لیکن اگر یہ محض انتخابی بیان بازی ثابت ہوئی تو خطہ ایک اور بحران کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔
فلسطین کے لیے یہ بیانات وقتی تسلی تو دے سکتے ہیں، مگر زمینی حقائق میں تبدیلی اس وقت ہی ممکن ہوگی جب عالمی طاقتیں فیصلہ کن اور اصولی موقف اختیار کریں۔
TRUMP: "I WILL NOT ALLOW ISRAEL TO ANNEX THE WEST BANK… I will not allow it.”
Israel just voted to annex the West Bank WHILE our Vice President was visiting, in an insulting attempt to show dominance.
The silent war is rising to the surface.
pic.twitter.com/sk5dfFsEfl
— ĐⱤØ₲Ø🇺🇸 (@KAGdrogo) October 23, 2025