مشہور یوٹیوبر ڈکی بھائی جسمانی ریمانڈ کے خلاف سیشن کورٹ میں اپیل دائر
ڈکی بھائی کی اپیل: جسمانی ریمانڈ کی توسیع کے خلاف سیشن کورٹ لاہور میں درخواست
پاکستان کے معروف یوٹیوبر سعد الرحمان، جنہیں ان کے یوٹیوب چینل پر "ڈکی بھائی” کے نام سے جانا جاتا ہے، نے جوڈیشل مجسٹریٹ کے جسمانی ریمانڈ کے فیصلے کے خلاف سیشن کورٹ لاہور میں اپیل دائر کر دی۔ یہ اپیل ان کے وکیل چوہدری عثمان علی کی وساطت سے دائر کی گئی، اور سیشن کورٹ نے اس اپیل کو سماعت کے لیے منظور بھی کر لیا ہے۔
ڈکی بھائی پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی ویڈیوز میں جوئے کی ایپس کو پروموٹ کیا، جس کی بنا پر ان کے خلاف این سی سی آئی اے (نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی) اور دیگر حکومتی اداروں کی جانب سے تحقیقات جاری ہیں۔ ان پر لگنے والے اس سنگین الزام نے نہ صرف ان کے یوٹیوب چینل کو متاثر کیا، بلکہ یہ ایک وسیع قانونی و سماجی بحث کا موضوع بھی بن چکا ہے۔
جسمانی ریمانڈ کی درخواست
سعد الرحمان (ڈکی بھائی) کو حال ہی میں اس کیس میں گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ جس کے بعد مجسٹریٹ نے ان کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا تاکہ پولیس کو ان سے مزید تفتیش کرنے کا موقع مل سکے۔
تاہم، ڈکی بھائی نے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سیشن کورٹ میں اپیل دائر کی۔ ان کی جانب سے دائر کی گئی اپیل میں موقف اختیار کیا گیا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے ریمانڈ کی درخواست کا جائزہ لینے میں حقائق کو نظرانداز کیا اور انہیں جسمانی ریمانڈ دینے کے فیصلے میں شفافیت کی کمی تھی۔ اپیل میں کہا گیا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے غیر ضروری طور پر ریمانڈ کی مدت کو بڑھا دیا اور یہ فیصلہ غیر قانونی اور غیر منصفانہ تھا، جس کو عدالت نے کلعدم قرار دینا چاہیے۔
سیشن کورٹ لاہور میں اپیل کی سماعت
سماعت کے دوران، سیشن کورٹ لاہور نے ڈکی بھائی کی اپیل کو منظور کر لیا اور اس پر کارروائی شروع کر دی۔ اس اپیل میں عدالت سے درخواست کی گئی کہ جوڈیشل ریمانڈ کی توسیع کو منسوخ کیا جائے اور ملزم کو جلد از جلد رہا کیا جائے۔
سیشن کورٹ نے اس درخواست پر غور کرنے کے بعد، این سی سی آئی اے (نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے یکم ستمبر تک تحریری جواب طلب کر لیا ہے۔ یہ نوٹس اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ عدالت این سی سی آئی اے سے اس کیس میں متعلقہ معلومات یا جواب کی توقع کر رہی ہے تاکہ وہ ڈکی بھائی کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق فیصلہ کر سکے۔
ڈکی بھائی کے خلاف الزامات
یوٹیوبر ڈکی بھائی پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی ویڈیوز میں مختلف جوئے کی ایپس کی تشہیر کی اور ان کے ذریعے نوجوانوں کو ان ایپس کے استعمال کی ترغیب دی۔ ان ایپس کے ذریعے صارفین جوئے کا کھیل کھیلنے کے لیے پیسے لگاتے ہیں، اور یہ ایپس غیر قانونی طور پر لوگوں کو جوئے کے کھیل میں ملوث کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
یہ الزامات نہ صرف قانونی طور پر سنگین ہیں بلکہ یہ ان نوجوانوں کے لیے ایک خطرہ بھی ہیں جو ان ایپس کے ذریعے جوئے کی لت میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ ڈکی بھائی کی ویڈیوز اور ان کی مقبولیت نے ان کے خلاف اٹھنے والے سوالات کو مزید تقویت دی ہے، کیونکہ ان کی ویڈیوز نے لاکھوں نوجوانوں تک رسائی حاصل کی ہے۔
جوئے کی ایپس اور ان کے اثرات
جوئے کی ایپس پر مبنی اس معاملے نے پورے ملک میں ایک اہم بحث کا آغاز کیا ہے۔ پاکستان میں جوئے کی سرگرمیاں غیر قانونی ہیں، اور ان ایپس کے ذریعے لوگوں کو جوئے کی جانب راغب کرنا ایک سنگین جرم ہے۔ پاکستان میں جوئے کے کھیل پر سخت پابندیاں ہیں، اور حکومت اس پر قابو پانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔
ڈکی بھائی کے کیس میں یہ سوالات اُٹھ رہے ہیں کہ آیا وہ جان بوجھ کر ان ایپس کو فروغ دے رہے تھے یا انہیں اس کی غیر قانونی نوعیت کا علم نہیں تھا۔ اسی سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں، اور انہیں تفتیش کے دوران کچھ معلومات حاصل کرنے کے لیے پولیس کی تحویل میں رکھا گیا تھا۔
وکیل کا موقف اور عدالت میں پیش ہونے والا مواد
ڈکی بھائی کے وکیل، چوہدری عثمان علی نے اپیل میں عدالت سے درخواست کی کہ ان کے موکل کو جسمانی ریمانڈ پر نہ رکھا جائے کیونکہ پولیس نے تفتیش کے دوران ملزم سے کسی قسم کی کوئی نئی معلومات نہیں حاصل کی۔ وکیل کا موقف تھا کہ جوڈیشل مجسٹریٹ نے کسی قسم کی ٹھوس بنیادوں کے بغیر جسمانی ریمانڈ منظور کیا اور اس عمل میں شفافیت کی کمی تھی۔
انہوں نے اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ اگر پولیس کو مزید معلومات کی ضرورت ہوتی تو وہ ڈکی بھائی سے جوڈیشل ریمانڈ کے دوران بھی سوالات کر سکتی تھی، اس لیے جسمانی ریمانڈ کی مزید توسیع کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
قانونی اور سماجی اثرات
ڈکی بھائی کا کیس نہ صرف یوٹیوب اور سوشل میڈیا کے مقبول ترین افراد کے لیے اہم ہے، بلکہ اس کا اثر پاکستانی قانون، نوجوانوں کی صحت، اور جوئے کی روک تھام کے لیے حکومتی پالیسی پر بھی پڑ سکتا ہے۔ یہ کیس پاکستان میں سوشل میڈیا پر اثرانداز ہونے والے افراد کے لیے ایک سنگ میل بن چکا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستانی سوشل میڈیا پر اثرانداز ہونے والے افراد کا کردار اہم ہوتا ہے، اور انہیں قانون کی حدود کا پالن کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، نوجوانوں پر اثر ڈالنے والی ایپس اور مواد کی نگرانی کرنا اور ان پر قانون کا اطلاق کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری بنتا ہے۔ اس کیس کے نتیجے میں حکومت کو یہ سبق مل سکتا ہے کہ سوشل میڈیا پر اثرانداز ہونے والوں کو کس طرح ذمہ داری کے ساتھ قانون کے دائرے میں رکھا جائے۔
کیس کا مستقبل
ڈکی بھائی کے کیس کے مستقبل میں اہم قانونی سوالات اٹھ سکتے ہیں، خاص طور پر اگر عدالت نے جسمانی ریمانڈ کی درخواست مسترد کر دی تو اس کے بعد کیس کس راستے پر جائے گا۔ عدالت کی جانب سے این سی سی آئی اے سے جواب طلب کرنے کا فیصلہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کیس میں مزید پیچیدگیاں آ سکتی ہیں، اور اس سے سوشل میڈیا پر جوئے کے کھیل کی تشہیر کرنے والوں کے لیے ایک قانونی مثال قائم ہو سکتی ہے۔
اس کیس کے فیصلے کے اثرات نہ صرف ڈکی بھائی پر بلکہ پورے سوشل میڈیا کمیونٹی اور نوجوانوں کے لیے ایک سبق ہوں گے کہ انہیں کس طرح اپنے مواد کی تشہیر کے دوران قانونی حدود کا خیال رکھنا چاہیے۔
ڈکی بھائی کا کیس نہ صرف ایک فرد کا معاملہ ہے بلکہ یہ سوشل میڈیا کے اثرات، نوجوانوں کی صحت، اور قانون کی حکمرانی پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ اس معاملے کی آئندہ پیش رفت پر نظر رکھی جائے گی، اور اس کے نتیجے میں نہ صرف یوٹیوبرز بلکہ دیگر سوشل میڈیا پر اثرانداز ہونے والے افراد کے لیے اہم ہدایات مل سکتی ہیں۔

Comments 1