ٹک ٹاکرز سے ٹیکس وصولی: فیصل واوڈا کی تجویز اور حکومت کی حکمت عملی
پاکستان میں سوشل میڈیا انکم پر ٹیکس عائد کرنے کی بحث نے ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں سینیٹر فیصل واوڈا نے حکومت کو مشورہ دیا کہ اگر ٹک ٹاکرز سے ٹیکس وصولی کا عمل شروع کرنا ہے تو سب سے پہلے پنجاب سے کیا جائے۔ ان کے مطابق، پنجاب میں سب سے زیادہ ٹک ٹاکرز موجود ہیں اور ایف بی آر کو وہاں سے سب سے بڑی ریکوری حاصل ہو سکتی ہے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب حکومت پہلے ہی مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں سوشل میڈیا سے آمدن حاصل کرنے والوں پر 3.5 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دے چکی ہے۔
فیصل واوڈا کی تجویز
فیصل واوڈا نے سینیٹ کمیٹی کے اجلاس میں کہا کہ حکومت کی جانب سے ٹک ٹاکرز سے ٹیکس وصولی ایک اچھا قدم ہے، لیکن اگر یہ کام مرحلہ وار کیا جائے تو اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں سب سے زیادہ ٹک ٹاکرز موجود ہیں اور اگر ایف بی آر وہاں سے آغاز کرے تو اسے سب سے بڑی کامیابی ملے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ٹیکس حکومت کے لیے نئی آمدن کے دروازے کھول سکتا ہے، کیونکہ بہت سے ٹک ٹاکرز لاکھوں روپے ماہانہ کما رہے ہیں۔
ٹک ٹاکرز سے ٹیکس وصولی کیوں اہم ہے؟
پاکستان میں ٹک ٹاک دنیا کی سب سے زیادہ مقبول سوشل میڈیا ایپس میں سے ایک بن چکی ہے۔ لاکھوں نوجوان اپنی ویڈیوز پوسٹ کر کے نہ صرف شہرت حاصل کر رہے ہیں بلکہ معقول آمدنی بھی کما رہے ہیں۔ ایسے میں ٹک ٹاکرز سے ٹیکس وصولی حکومت کے لیے ایک اہم ذریعہ آمدن ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ ٹیکس سسٹم کئی وجوہات کی بنا پر ضروری ہے:
قومی خزانے میں آمدن کا اضافہ۔
سوشل میڈیا پر کمائی کرنے والے افراد کو باضابطہ نیٹ ورک میں لانا۔
غیر منظم آمدن کو ریگولیٹ کرنا۔
ٹیکس کے نظام میں شفافیت لانا۔
حکومت کی حکمت عملی
مالی سال 26-2025 کے بجٹ میں حکومت نے واضح کر دیا تھا کہ سوشل میڈیا انکم پر ٹیکس لگایا جائے گا۔ اس میں یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک سب شامل ہیں۔ لیکن خاص طور پر ٹک ٹاکرز سے ٹیکس وصولی پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے کیونکہ یہ ایپ نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔
ایف بی آر کے ذرائع کے مطابق، اس حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے مختلف پلیٹ فارمز کے ساتھ تعاون کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، انکم ٹریک کرنے کے لیے بینک اکاؤنٹس اور آن لائن ٹرانزیکشنز پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔
نوجوانوں پر اثرات
اگرچہ حکومت کا مؤقف ہے کہ ٹک ٹاکرز سے ٹیکس وصولی قومی معیشت کے لیے مفید ہوگی، لیکن نوجوان ٹک ٹاکرز میں اس حوالے سے ملے جلے جذبات پائے جاتے ہیں۔
کچھ نوجوانوں کا خیال ہے کہ یہ ٹیکس ان کی آمدن میں کمی کرے گا۔
جبکہ دوسرے سمجھتے ہیں کہ ٹیکس دینے سے ان کی کمائی کو قانونی حیثیت ملے گی اور وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ اپنا کام جاری رکھ سکیں گے۔
ماہرین کی رائے
معاشی ماہرین کے مطابق، پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے یہ ایک مثبت قدم ہے۔ اگر ٹک ٹاکرز سے ٹیکس وصولی منظم طریقے سے کی جائے تو نہ صرف قومی خزانے کو فائدہ ہوگا بلکہ ٹیکس نیٹ بھی وسیع ہوگا۔
لیکن ماہرین یہ بھی خبردار کرتے ہیں کہ اگر ٹیکس وصولی کے طریقہ کار میں پیچیدگیاں یا شفافیت کی کمی ہوئی تو نوجوانوں میں مزاحمت بڑھ سکتی ہے اور وہ غیر قانونی طریقوں سے اپنی آمدن چھپانے لگیں گے۔
عالمی تناظر
دنیا کے کئی ممالک میں پہلے ہی سوشل میڈیا انکم پر ٹیکس لاگو ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور بھارت میں یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز کو اپنی آمدن پر ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں بھی اگر یہی ماڈل اپنایا جائے تو ملک عالمی مالیاتی معیار کے قریب جا سکتا ہے۔
اس تناظر میں، ٹک ٹاکرز سے ٹیکس وصولی پاکستان کے لیے ایک ضروری قدم ہے تاکہ وہ عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے نئے مواقع پیدا کر سکے۔
امریکا میں ٹک ٹاک کا نیا مالک کون ہوگا؟ بڑے نام دوڑ میں شامل
فیصل واوڈا کی تجویز نے اس بحث کو مزید آگے بڑھا دیا ہے۔ اگر حکومت واقعی مرحلہ وار حکمت عملی اپناتی ہے اور سب سے پہلے پنجاب میں ٹک ٹاکرز سے ٹیکس وصولی شروع کرتی ہے تو یہ نہ صرف ایک کامیاب پالیسی ہو سکتی ہے بلکہ قومی آمدن میں بھی بڑا اضافہ کر سکتی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس ٹیکس نظام کو کس حد تک شفاف، آسان اور منصفانہ بناتی ہے تاکہ نوجوان طبقہ اس کا حصہ بننے پر آمادہ ہو۔









