فلک جاوید کو ریلیف، متنازع ٹوئٹ کیس میں لاہور سیشن کورٹ نے ضمانت منظور کرلی
فلک جاوید کو متنازع ٹوئٹ کیس میں لاہور سیشن کورٹ سے ضمانت مل گئی
لاہور: متنازع سوشل میڈیا پوسٹ کے کیس میں گرفتار فلک جاوید کو لاہور کی سیشن عدالت سے ضمانت مل گئی ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج ڈاکٹر ساجدہ احمد نے درخواست گزار کی طرف سے دائر ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم جاری کیا۔ عدالت نے فلک جاوید کو ایک لاکھ روپے کا ضمانتی مچلکہ جمع کروانے کا حکم دیا، جس کے بعد ان کی رہائی کی قانونی کارروائی شروع کر دی گئی۔
کیس کا پس منظر
فلک جاوید پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک ایسی پوسٹ شیئر کی تھی جسے ریاستی اداروں کے خلاف تصور کیا گیا۔ مقدمے کے اندراج کے بعد انہیں پولیس نے گرفتار کر لیا تھا اور ابتدائی تفتیش کے بعد انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں سے انہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا گیا تھا۔
پولیس کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ فلک جاوید کی ٹوئٹ نہ صرف قابل اعتراض تھی بلکہ اس سے قومی سلامتی، ریاستی اداروں کے وقار اور عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچی۔ مقدمے میں تعزیراتِ پاکستان کی مختلف دفعات شامل کی گئی تھیں، جن میں سائبر کرائم قوانین کے تحت کارروائی بھی شامل ہے۔
قانونی کارروائی اور درخواستِ ضمانت
فلک جاوید کی جانب سے معروف قانون دان عبدالمعروف ایڈووکیٹ نے لاہور سیشن کورٹ میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی، جو بعد ازاں گرفتاری کے بعد باقاعدہ ضمانت کی درخواست میں تبدیل کر دی گئی۔ عبدالمعروف ایڈووکیٹ نے عدالت کے روبرو مؤقف اختیار کیا کہ ان کی مؤکلہ کے خلاف مقدمہ جھوٹے الزامات پر مبنی ہے، اور ٹویٹ کا مقصد کسی بھی ادارے کی توہین یا ریاست مخالف بیانیہ نہیں تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آزادی اظہار رائے ہر شہری کا آئینی حق ہے اور فلک جاوید نے جو کچھ بھی سوشل میڈیا پر تحریر کیا، وہ ایک ذاتی رائے تھی، نہ کہ کوئی مجرمانہ عمل۔ وکیل صفائی نے عدالت سے استدعا کی کہ چونکہ ان کی مؤکلہ ایک پرامن شہری ہیں، اور کسی قسم کی بدنیتی یا خطرناک ارادے کا کوئی ثبوت موجود نہیں، لہٰذا انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔
عدالت کا فیصلہ
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا، جو بعد ازاں سنایا گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج ڈاکٹر ساجدہ احمد نے فلک جاوید کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں ریمارکس دیے کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو، کسی بھی فرد کو اس کے خیالات کی بنیاد پر مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اظہارِ رائے کی آزادی آئینی حق ہے، لیکن اس کے استعمال میں حدود کا تعین بھی ضروری ہے۔ تاہم، ابتدائی شواہد کی بنیاد پر بظاہر ایسا کوئی واضح ثبوت موجود نہیں جو یہ ظاہر کرے کہ فلک جاوید کا اقدام ریاست مخالف کسی منظم منصوبے کا حصہ تھا۔
فلک جاوید کی رہائی، خاندان اور وکلا کا ردعمل
عدالتی فیصلے کے بعد فلک جاوید کے خاندان اور قانونی ٹیم نے اطمینان کا اظہار کیا۔ عبدالمعروف ایڈووکیٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ انصاف کی فتح ہے اور آئندہ ایسے معاملات میں عدالتوں کا کردار کلیدی ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر اظہارِ رائے کی آزادی کو دبانا آئینی اقدار کے منافی ہے۔
فلک جاوید کے اہلخانہ نے بھی عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی کو بے بنیاد الزام میں نشانہ بنایا گیا، اور وہ قانون پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلک ہمیشہ آئینی حدود کے اندر رہ کر اظہار خیال کرتی ہیں، اور ان کے خلاف کارروائی ذاتی عناد یا سوشل میڈیا پر فعال موجودگی کی بنیاد پر کی گئی۔
سوشل میڈیا اور شہری آزادیوں کا چیلنج
یہ کیس ایک بار پھر سوشل میڈیا پر آزادی اظہار اور ریاستی حساسیت کے درمیان توازن کے مسئلے کو اجاگر کرتا ہے۔ پاکستان میں حالیہ برسوں کے دوران ایسے متعدد مقدمات سامنے آ چکے ہیں جن میں صارفین کو محض اپنی رائے یا پوسٹ کی بنیاد پر قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ریاستی اداروں کا وقار یقینی بنانا اہم ہے، لیکن اس مقصد کے لیے شہری آزادیوں کو محدود کرنا آئینی و جمہوری اصولوں سے انحراف تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے زور دیا کہ ایسی کارروائیوں کے بجائے رائے عامہ کو سنبھالنے اور شعور اجاگر کرنے کے لیے تعلیم، مکالمہ اور تربیت جیسے اقدامات زیادہ مؤثر ہو سکتے ہیں۔
آئندہ ممکنہ کارروائیاں
فلک جاوید کو ضمانت ملنے کے باوجود کیس اب بھی عدالت میں زیر سماعت ہے، اور پراسیکیوشن کی جانب سے مکمل چالان عدالت میں جمع کرانے کے بعد باقاعدہ سماعت کا آغاز ہو گا۔ اگرچہ ضمانت ملنے سے ان کی وقتی رہائی ممکن ہو گئی ہے، لیکن حتمی قانونی نتیجہ مقدمے کی مکمل سماعت کے بعد ہی سامنے آئے گا۔
پراسیکیوشن ذرائع کے مطابق وہ عدالت میں مکمل شواہد پیش کریں گے، اور فلک جاوید کی ٹوئٹ کو ریاست مخالف سرگرمی کے طور پر ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوسری جانب، دفاعی ٹیم پر امید ہے کہ مقدمہ شواہد کی کمی اور قانونی بنیادوں پر خارج ہو جائے گا۔
فلک جاوید کو لاہور سیشن کورٹ سے ضمانت کا ملنا ایک اہم قانونی پیش رفت ہے، جو سوشل میڈیا، اظہارِ رائے، اور ریاستی مفادات کے باہمی تعلق پر جاری قومی مباحثے میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرتا ہے۔ عدالت کا فیصلہ اس امر کی عکاسی کرتا ہے کہ قانون صرف سزا دینے کا نہیں، بلکہ تحفظ فراہم کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔
یہ کیس نہ صرف فلک جاوید بلکہ ملک کے دیگر سوشل میڈیا صارفین کے لیے بھی ایک مثال بن سکتا ہے کہ قانونی دائرے کے اندر رہتے ہوئے رائے کا اظہار کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ واقعہ ریاستی اداروں کے لیے بھی ایک یاد دہانی ہے کہ اظہار رائے اور تنقید کو دبانے کے بجائے اس کا مؤثر جواب شفافیت، کارکردگی اور عوامی اعتماد کی بحالی سے دیا جائے۔

