فرید ایکسپریس حادثہ – پاکستان ریلوے کے لیے ایک بڑا الارم
جامشورو کے قریب کوٹری اسٹیشن پر پیش آنے والا فرید ایکسپریس حادثہ نہ صرف ریلوے نظام کی خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے بلکہ مسافروں کے لیے تشویش کا باعث بھی بنا ہے۔ فیصل آباد سے کراچی جانے والی اس ٹرین کی تین بوگیاں اچانک پٹری سے اتر گئیں۔ خوش قسمتی سے اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم اس واقعے نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ پاکستان ریلوے کب تک اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوگا؟
حادثے کی تفصیلات
ریلوے حکام کے مطابق یہ فرید ایکسپریس حادثہ اس وقت پیش آیا جب ٹرین کوٹری اسٹیشن کے قریب پہنچی۔ اچانک تین بوگیاں پٹری سے اتر گئیں اور ٹرین رک گئی۔ واقعے کے بعد ڈاؤن ٹریک پر ٹرینوں کی آمدورفت معطل ہوگئی، جس سے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ریلوے عملہ اور کرین موقع پر پہنچ گئے تاکہ بوگیوں کو دوبارہ پٹری پر چڑھایا جا سکے اور ٹریک کو بحال کیا جا سکے۔
مسافروں کی مشکلات
فرید ایکسپریس حادثہ کے نتیجے میں اگرچہ کسی جان کا نقصان نہیں ہوا، لیکن مسافروں کو گھنٹوں انتظار کی اذیت برداشت کرنا پڑی۔ کئی مسافر کراچی پہنچنے کے لیے متبادل سواری کی تلاش میں پریشان نظر آئے۔ ریلوے اسٹیشنوں پر اعلان کیا گیا کہ حادثے کے باعث دیگر ٹرینوں کی آمدورفت بھی متاثر ہوگی۔ اس تاخیر نے نہ صرف عام مسافروں کو بلکہ کاروباری افراد کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔
پاکستان ریلوے کا ردعمل
ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ فرید ایکسپریس حادثہ کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ ابتدائی طور پر خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حادثہ ٹریک کی خرابی یا مرمت کے ناقص انتظامات کے باعث پیش آیا۔ حکام نے وعدہ کیا ہے کہ جلد ہی ایک مکمل رپورٹ تیار کر کے عوام کے سامنے لائی جائے گی۔ تاہم، عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے صرف تحقیقات کافی نہیں ہیں، عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔
ٹریکس اور مرمت کے مسائل
پاکستان ریلوے کے ماہرین کا ماننا ہے کہ اکثر حادثات کی بڑی وجہ پٹریوں کی خستہ حالی ہے۔ کئی مقامات پر ٹریکس پرانی اور مرمت طلب ہیں۔ فرید ایکسپریس حادثہ بھی انہی مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگر ریلوے کے نظام کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اپ گریڈ نہ کیا گیا تو مستقبل میں بھی ایسے واقعات پیش آنے کے خدشات ہیں۔
مسافروں کے خدشات
حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر لوگوں نے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ بہت سے صارفین نے کہا کہ وہ ریلوے پر مزید بھروسہ نہیں کر سکتے۔ کئی مسافروں نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ فرید ایکسپریس حادثہ میں جانیں نہیں گئیں، لیکن یہ ایک بڑا وارننگ ہے۔ عوام کا ماننا ہے کہ حکومت اور ریلوے انتظامیہ کو فوری طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مسافروں کا اعتماد بحال ہو سکے۔
سابقہ حادثات اور موازنہ
یہ پہلا موقع نہیں جب فرید ایکسپریس حادثہ جیسا واقعہ پیش آیا ہو۔ اس سے قبل بھی پاکستان ریلوے کی ٹرینوں کے پٹری سے اترنے یا ٹکرانے کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ کچھ حادثات میں تو درجنوں جانیں ضائع ہوئیں اور سیکڑوں مسافر زخمی ہوئے۔ اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس بار کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تو یہ محض خوش قسمتی تھی۔
حکومت کی ذمہ داری
ریلوے ماہرین اور عوام دونوں کا مطالبہ ہے کہ فرید ایکسپریس حادثہ کے بعد حکومت کو ریلوے کی اپ گریڈیشن پر فوری توجہ دینی چاہیے۔ جدید انجنز، محفوظ ٹریکس اور بہتر انتظامی ڈھانچہ وقت کی ضرورت ہیں۔ پاکستان جیسے بڑے ملک میں ریلوے نظام کو مضبوط اور قابل اعتماد بنانا ناگزیر ہے تاکہ مسافر بلا خوف و خطر سفر کر سکیں۔
مستقبل کے لیے اقدامات
ریلوے ٹریکس کی مکمل جانچ پڑتال اور مرمت۔
جدید انسپیکشن مشینوں کا استعمال۔
بوگیوں اور انجنوں کی باقاعدہ مینٹیننس۔
عملے کی جدید تربیت۔
حادثات کی صورت میں ایمرجنسی پلان پر عملدرآمد۔
اگر یہ اقدامات نہ کیے گئے تو نہ صرف مزید حادثات ہوں گے بلکہ ریلوے کا نظام مکمل طور پر عوامی اعتماد کھو دے گا۔
مستونگ دھماکہ: ریلوے ٹریک کے قریب خوفناک واقعہ، جانی نقصان سے محفوظ
جامشورو کے قریب پیش آنے والا فرید ایکسپریس حادثہ ایک بڑا الارم ہے جو ہمیں یہ یاد دلاتا ہے کہ پاکستان ریلوے کو اب سنجیدگی سے اپنی خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔ یہ حادثہ جانی نقصان سے خالی ضرور ہے لیکن عوامی اعتماد کے زوال کا باعث بنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت، ریلوے حکام اور متعلقہ ادارے فوری طور پر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔