ایف بی آر آکشن ماڈیول اسکینڈل — فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی 103 گاڑیاں، جعلی آئی ڈیز اور پوشیدہ کرداروں پر سنگین سوالات
اسلام آباد (شاہنواز خان) : — فیڈرل بورڈ آف ریونیو (FBR) کا مقصد ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ شفافیت، احتساب اور ادارہ جاتی دیانتداری کو ترجیح دی جائے۔ اسی مقصد کے تحت اگست 2021 میں وی بوک (WeBOC) آکشن ماڈیول متعارف کروایا گیا تاکہ ضبط شدہ اسمگل شدہ گاڑیوں کی نیلامی اور ان کی رجسٹریشن کے عمل میں شفافیت آ سکے۔ اس نظام کے ذریعے موٹر رجسٹریشن اتھارٹیز کو پابند بنایا گیا تھا کہ وہ گاڑیوں کی رجسٹریشن سے قبل آن لائن تصدیق کریں۔ اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ کاغذی کارروائی اور جعلسازی کے امکانات کم ہوں اور عوام کو یقین دلایا جا سکے کہ ادارہ کرپشن سے پاک ہے۔
لیکن جولائی 2025 میں یہ خواب بکھر گیا۔ ایک ایسے میگا اسکینڈل نے جنم لیا جس نے نہ صرف ایف بی آر کی ساکھ کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ یہ سوال بھی کھڑا کر دیا کہ کیا اصلاحات کے نام پر متعارف کرایا جانے والا نظام خود کرپٹ مافیا کے لیے نیا ہتھیار بن گیا؟
ایف بی آر آکشن ماڈیول اسکینڈل کی ابتدا — 103 گاڑیاں، جعلی یوزر آئی ڈیز
تحقیقات سے پتہ چلا کہ وی بوک سسٹم میں کل 1909 گاڑیوں کی تفصیلات اپ لوڈ کی گئی تھیں۔ لیکن ان میں سے 103 گاڑیاں جعلی یوزر آئی ڈیز کے ذریعے سسٹم میں داخل کی گئیں۔ یہ وہ گاڑیاں تھیں جو اسمگل شدہ تھیں لیکن ان کی رجسٹریشن کے بعد انہیں بظاہر قانونی حیثیت مل گئی۔
اس بات پر سب سے بڑا سوال یہ اٹھا کہ جدید ترین اور فول پروف نظام میں یہ جعلسازی کیسے ممکن ہوئی؟ کیا سسٹم اتنا کمزور تھا یا پھر اندر سے کوئی طاقتور ہاتھ شامل تھا؟
ایف بی آر آکشن ماڈیول اسکینڈل میں ملوث افسران اور ابتدائی کارروائی
ڈیجیٹل آڈٹ اور انٹرنل انویسٹیگیشن کے بعد ایف بی آر نے تسلیم کیا کہ دو افسران غیر قانونی رجسٹریشن میں ملوث تھے۔ ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 9 جولائی 2025 کو ایک ڈپٹی کلکٹر اور ایک اسسٹنٹ کلکٹر کو معطل کر دیا گیا۔
مزید تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ یہ محض دو افسران کی کارروائی نہیں بلکہ ایک منظم نیٹ ورک تھا جس میں کسٹمز کے افسران، موٹر رجسٹریشن اتھارٹیز اور کار ڈیلرز بھی شامل تھے۔
مریم جمیلہ اور نعیم رضا کے کردار پر سوالات
رئیس الاخبار انوسٹی گیشن سیل کے ذرائع کے مطابق:
خاتون ڈپٹی کلکٹر مریم جمیلہ نے 24 گاڑیوں کی رجسٹریشن کی۔
اسسٹنٹ کلکٹر نعیم رضا نے 9 گاڑیوں کی رجسٹریشن میں کردار ادا کیا۔
یعنی دونوں کے ذریعے مجموعی طور پر 33 گاڑیاں رجسٹر ہوئیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کل 103 گاڑیاں جعلی یوزر آئی ڈیز سے اپ لوڈ ہوئیں تو باقی 70 گاڑیوں کا کیا بنا؟ وہ کہاں گئیں؟ ان کی رجسٹریشن کس نے کی؟ اور کس کے حکم پر؟
انوسٹی گیشن سیل کے اہم سوالات
رئیس الاخبار انوسٹی گیشن سیل نے اپنی رپورٹ میں کئی سنگین سوالات اٹھائے ہیں:
فول پروف سسٹم میں گاڑیاں اپ لوڈ کیسے ہوئیں؟
غیر متعلقہ ڈائریکٹوریٹ کے لیے نیلامی کے رولز کس نے تخلیق کیے؟
کس کے CRF پر ایسا کیا گیا اور کب؟
غیر متعلقہ افراد کو کمپیوٹر سسٹم تک رسائی کس نے دی؟
ان افراد کو نیلامی اور رجسٹریشن کا اختیار کس بنیاد پر دیا گیا؟
کیا اختیار دینے والوں کا بھی احتساب ہوا؟ اگر نہیں تو کیوں؟
کیا ایف بی آر طاقتور لوگوں کو بچا رہا ہے؟
جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقات میں کیا حقائق اور شواہد اکٹھے کیے؟
ایف بی آر آکشن ماڈیول اسکینڈل رپورٹ کہاں ہے اور عوام کے سامنے کیوں نہیں لائی گئی؟
جے آئی ٹی کی تحقیقات اور گرفتاریوں کی تفصیل
ایف بی آر نے معاملے کی سنگینی دیکھتے ہوئے 9 جولائی 2025 کو باضابطہ طور پر ایف آئی اے، کسٹمز اور انٹیلی جنس ایجنسیوں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کی درخواست کی۔
10 جولائی 2025 کو ایف آئی اے کو شکایت دی گئی۔
جے آئی ٹی نے تفتیش شروع کی۔
28 اگست 2025 کو ایف آئی اے نے ایف آئی آر درج کی اور ایف بی آر آکشن ماڈیول اسکینڈل میں ملوث افسران کو گرفتار کر لیا۔
اب تک کسٹمز انفورسمنٹ 7 ایف آئی آر درج کر چکی ہے اور 13 افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

پردے کے پیچھے چھپے کردار
تاہم یہ سوال ابھی تک موجود ہے کہ کیا صرف یہ چند افسران اس بڑے اسکینڈل میں ملوث تھے یا ان کے پیچھے کوئی طاقتور ہاتھ موجود ہے؟
کیا جے آئی ٹی نے اصل ماسٹر مائنڈ کو بے نقاب کیا؟ یا صرف نچلے درجے کے افسران کو قربانی کا بکرا بنایا گیا؟
یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ دو افسران اپنی مرضی سے آن لائن سسٹم نہیں بنا سکتے تھے۔ سسٹم میں داخلے کی اجازت اور رسائی صرف اعلیٰ سطح پر دی جا سکتی تھی۔ تو پھر وہ کون تھا جس نے انہیں یہ اختیار دیا؟
ادارہ جاتی ساکھ اور عوامی اعتماد پر سوالیہ نشان
ایف بی آر آکشن ماڈیول اسکینڈل صرف گاڑیوں کی غیر قانونی رجسٹریشن تک محدود نہیں بلکہ ایف بی آر جیسے بڑے ادارے کی ساکھ پر براہ راست حملہ ہے۔ عوام سوال کر رہی ہے:
اگر اصلاحات اور آٹومیشن بھی کرپشن کو نہیں روک سکیں تو پھر ان کا مقصد کیا ہے؟
اگر بڑے مگر مچھوں کو بچا لیا جائے اور صرف چھوٹے افسران کو سزا ملے تو شفافیت کہاں ہے؟
کیا یہ سب کچھ محض دکھاوا ہے یا واقعی احتساب ہو رہا ہے؟
کوہستان میگا کرپشن سکینڈل – خیبرپختونخوا حکومت کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کا بڑا فیصلہ
رئیس الاخبار انوسٹی گیشن سیل کی رپورٹ کے مطابق(fbr corruption):
ایف بی آر کو چاہیے کہ جے آئی ٹی رپورٹ فوری طور پر عوام کے سامنے لائے۔
جن اعلیٰ افسران نے غیر متعلقہ افراد کو سسٹم تک رسائی دی، ان کے خلاف کارروائی ہو۔
نیلامی کے رولز کس کے حکم پر بدلے گئے، یہ عوام کو بتایا جائے۔
بقیہ 70 گاڑیوں کا حساب دیا جائے کہ ان کی رجسٹریشن کس نے اور کیسے کی۔
اصلاحات اور آٹومیشن لانے والے حکام کے کردار کی بھی تحقیقات کی جائیں۔
صرف اسی صورت میں عوامی اعتماد بحال ہو سکتا ہے اور ادارے کی ساکھ بچ سکتی ہے۔ ورنہ ایف بی آر آکشن ماڈیول اسکینڈل تاریخ کے سب سے بڑے ادارہ جاتی کرپشن کیسز میں شمار ہوگا۔
تفصیلات جاننے کے لیے لنک پر کلک کریں👇👇:
🔗https://t.co/ItYJCJQ3DW
. #ایف_بی_آر #گاڑیاں #جعلی_آئی_ڈیز #کرپشن #اسکینڈل #جے_آئی_ٹی #رئیس_الاخبار#FBR #Scandal #SmuggledCars #FakeIDs #Corruption #JIT #RaeesulAkhbar#RaeesulAkhbar #RaeesulAkhbar #thedailyraeesulakhbar pic.twitter.com/eJT5mR6704
— Raees ul Akhbar (@raees_ul_akhbar) September 10, 2025










Comments 1