آٹے کی قیمتوں میں اضافہ: پنجاب میں بارشوں اور سیلاب کے باعث آٹا 2500 روپے فی 20 کلو تک مہنگا
پنجاب میں شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث ملک بھر میں آٹے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ — ایک تفصیلی جائزہ
پاکستان کے سب سے بڑے اور زرعی لحاظ سے اہم صوبے پنجاب میں حالیہ دنوں ہونے والی شدید بارشوں اور تباہ کن سیلاب نے جہاں لاکھوں افراد کو متاثر کیا، وہیں ملک بھر کی معیشت اور بنیادی ضروریات کی قیمتوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ خاص طور پر آٹا، جو پاکستانی عوام کی روزمرہ خوراک کا ایک بنیادی جزو ہے، اس کی قیمتوں میں حیران کن اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
سیلاب کا پس منظر اور زرعی نقصانات
پنجاب کے مختلف علاقوں میں مسلسل اور غیرمعمولی بارشوں کے نتیجے میں نہ صرف دریاؤں کا پانی خطرناک حد تک بڑھ گیا بلکہ کئی اضلاع میں شدید سیلاب آیا، جس نے کھڑی فصلوں کو تباہ کر دیا۔ گندم کی فصل، جو آٹے کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، شدید متاثر ہوئی ہے۔ کھیتوں میں پانی کھڑا ہو جانے کی وجہ سے نہ صرف فصلیں ضائع ہوئیں بلکہ آئندہ فصل کی کاشت میں بھی تاخیر اور لاگت میں اضافہ متوقع ہے۔
قیمتوں میں اضافے کی تفصیلات
ادارہ شماریات کی 5 ستمبر 2025 تک کی رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں آٹے کے 20 کلو کے تھیلے کی قیمت میں پچھلے تین ہفتوں کے دوران نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ اضافہ نہ صرف پنجاب بلکہ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں محسوس کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق:
بنوں میں آٹے کی قیمت میں سب سے زیادہ 1050 روپے کا اضافہ دیکھا گیا۔
پشاور اور لاڑکانہ میں آٹے کے تھیلے کی قیمت 900 روپے تک بڑھ گئی۔
سکھر میں 840 روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
لاہور میں آٹا 830 روپے مہنگا ہوا۔
ملتان میں 826 روپے، گوجرانوالہ اور سیالکوٹ میں 817 روپے تک اضافہ ہوا۔
اسلام آباد میں 800 روپے اور راولپنڈی و کوئٹہ میں 740 روپے تک آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
بہاولپور میں آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت میں 866 روپے 67 پیسے تک کا اضافہ ہوا۔
مجموعی طور پر، گزشتہ تین ہفتوں میں آٹے کا 20 کلو کا تھیلا ملک بھر میں اوسطاً ایک ہزار 50 روپے تک مہنگا ہو چکا ہے۔ بعض شہروں میں یہ قیمت 2500 روپے تک پہنچ چکی ہے، جو کہ عام صارف کے لیے ایک شدید مالی بوجھ بن چکی ہے۔
اس اضافے کی وجوہات
زرعی پیداوار میں کمی: پنجاب میں فصلوں کی تباہی نے گندم کی سپلائی پر فوری اثر ڈالا ہے، جس سے مارکیٹ میں آٹے کی قلت پیدا ہوئی۔
ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک مسائل: سیلاب کے باعث سڑکیں اور پل متاثر ہونے کی وجہ سے آٹے کی ترسیل میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں، جس سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا۔
ذخیرہ اندوزی: ایسے حالات میں بعض ذخیرہ اندوز عناصر صورتحال کا فائدہ اٹھا کر آٹے کو مارکیٹ سے غائب کر دیتے ہیں تاکہ زیادہ منافع کما سکیں۔
فیول کی قیمتوں میں اضافہ: پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے نے اشیائے خوردونوش کی ترسیل پر لاگت بڑھا دی، جس کا اثر آٹے کی قیمت پر بھی پڑا۔
عوام پر اثرات
آٹے کی قیمتوں میں اس غیر معمولی اضافے نے عام آدمی کی زندگی کو مزید مشکل بنا دیا ہے۔ خاص طور پر دیہاڑی دار طبقہ اور کم آمدنی والے خاندان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ جہاں پہلے ایک تھیلا آٹا مہینے بھر کی روٹی کے لیے کافی ہوتا تھا، اب وہی آٹا عام صارف کی پہنچ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ بہت سے گھروں میں روٹی کی تعداد کم کر دی گئی ہے اور دیگر سستی اشیاء جیسے چاول یا دالوں پر انحصار بڑھ رہا ہے۔
حکومت کی جانب سے ردعمل
وفاقی اور صوبائی حکومتیں آٹے کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے لیے مختلف اقدامات پر غور کر رہی ہیں۔ ان میں شامل ہیں:
ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن: پنجاب سمیت مختلف صوبوں میں گوداموں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں تاکہ غیر قانونی ذخیرہ اندوزی کو روکا جا سکے۔
سبسڈی کی فراہمی: یوٹیلیٹی اسٹورز پر سبسڈی والے آٹے کی فراہمی کو مزید بڑھایا جا رہا ہے تاکہ کم آمدنی والے طبقے کو کچھ ریلیف مل سکے۔
درآمدی پالیسی پر نظر ثانی: اگر مقامی پیداوار کی کمی برقرار رہی، تو حکومت بیرون ملک سے گندم درآمد کرنے کا بھی منصوبہ بنا سکتی ہے تاکہ مارکیٹ میں استحکام لایا جا سکے۔
مستقبل کے امکانات
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر موسم کی یہی صورتحال جاری رہی اور فصلوں کی بحالی میں وقت لگا، تو آٹے کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، عالمی منڈی میں گندم کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور ملک کی زرمبادلہ کی صورتحال بھی آٹے کی قیمتوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
عوام کے لیے تجاویز
اجتماعی خریداری: خاندان یا محلے کے افراد مل کر آٹا بڑی مقدار میں خرید سکتے ہیں تاکہ تھوک قیمت پر فائدہ اٹھایا جا سکے۔
متبادل غذاؤں کا استعمال: دال، چاول، اور دیگر اشیاء کا استعمال بڑھا کر آٹے پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔
سرکاری یوٹیلیٹی اسٹورز سے خریداری: حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سبسڈی والے آٹے سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
پنجاب میں ہونے والی حالیہ شدید بارشوں اور سیلاب نے نہ صرف انسانی جان و مال کو نقصان پہنچایا بلکہ زرعی نظام اور خوراک کی فراہمی پر بھی گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ آٹے جیسی بنیادی ضرورت کی قیمتوں میں اتنا بڑا اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر صرف قدرتی آفات تک محدود نہیں بلکہ روزمرہ زندگی کے ہر شعبے میں محسوس کیا جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری اور مؤثر اقدامات کے ذریعے نہ صرف قیمتوں کو کنٹرول کرے بلکہ مستقبل میں ایسے بحرانوں سے بچنے کے لیے پائیدار زرعی اور ماحولیاتی پالیسی بھی اپنائے۔ عوامی شعور، شفافیت اور مشترکہ کوششوں سے ہی اس بحران سے نکلا جا سکتا ہے۔
