غزہ میں امداد کے انتظار میں 68 فلسطینی شہید، اسرائیلی فائرنگ انسانی بحران میں شدت کا باعث
غزہ میں جاری اسرائیلی حملوں کے دوران منگل کو کم از کم 68 فلسطینی شہید اور سینکڑوں زخمی ہو گئے، جن میں اکثریت ان افراد کی تھی جو خوراک یا امداد حاصل کرنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بسل نے بتایا کہ خان یونس کے قریب امدادی مرکز کے باہر فائرنگ کے نتیجے میں تقریباً 30 افراد ہلاک ہوئے، جو بھوک اور افلاس کے خلاف امداد کے منتظر تھے۔ شمالی غزہ میں زکیم بارڈر کراسنگ پر حملہ میں مزید 20 افراد جاں بحق ہوئے جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں، جبکہ 100 سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں، جنہیں اسپتالوں میں شدید حالت میں داخل کیا گیا۔
حملے کی تفصیلات اور شاہدین کے بیانات
ترجمان کے مطابق خان یونس کے واقعے میں امدادی مرکز کے قریب جمع لوگ اسرائیلی فوج کے گولیوں کا نشانہ بنے جبکہ زکیم کراسنگ پر جمع ہونے والے افراد پر ٹینک، ڈرون، اور چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی۔ مقامی ہسپتالوں میں سیاحتی عملے نے انتہائی ہنگامی صورتحال کا ذکر کیا، جہاں لاشوں اور شدید زخمیوں کی بڑی تعداد جمع تھی۔
اسرائیلی فائرنگ سے انسانی جانوں کا ضیاع: اسرائیلی فوج نے دعویٰ
اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس نے جنوب غزہ کے “مورگ کاریڈور” علاقے میں متوجہ افراد کے خلاف محض “وارننگ شاٹس” فائر کیے، اور اُن کا کہنا تھا کہ انہیں “جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں” ملی۔ اس موقف کے باوجود مقامی ذرائع نے کہا کہ کردار کمرشل ہتھیاروں اور افسران کے ذریعے رہے، جو واضح طور پر شہری ہجوم کو ہدف بنا رہے تھے۔
انسانی بحران کی شدت: خوراک، پانی و ادویات کی قلت
یہ حملہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب غزہ میں خوراک، پانی اور ادویات کی شدید قلت مسلسل انسانی بحران کو سنگین بنا رہی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں نے اس صورت حال کو “انسانی تباہی” قرار دے دیا ہے، اور گذشتہ ماہ aid seekers پر ہلاکتوں میں لوگو کی موجوگی نے سنسنی پھیلا دی ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں تقریباً 2.3 ملین افراد کو شدید غذاکی کمی کا سامنا ہے، اور UNICEF کی رپورٹ کے مطابق صرف مئی 2025 میں 5,119 بچے غذائی قلت کے باعث اسپتال پہنچائے گئے—یہ ایک تاریخی ریکارڈ ہے۔
امداد کے مقامات “Death Traps” کیوں بنے؟
GHF (Gaza Humanitarian Foundation) کے تحت چلنے والے بڑے امدادی مراکز کو اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے گروپوں نے “خون والے گڑھ” قرار دیا ہے۔ ان مراکز میں 2025 کے دوران لگ بھگ 875 aid-seekers کی ہلاکت ہوئی، جن کی اکثریت GHF سائٹس کی حدود میں ہوئی۔

عالمی ردعمل اور تشویش
متعدد بین الاقوامی تنظیموں نے اسرائیلی فائرنگ کی کارروائیوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے، اور aid کے مقامات کو شہریوں کے لیے “مقصود قتل گاہ” بتایا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپس نے کہا کہ امداد کو روکنے یا حملوں کا مقصد صرف اشیاء تک رسائی محدود کرنا ہے۔
سایر بین الاقوامی پیش رفت
امریکی سابق رئیس جمهور ٹرمپ نے امریکہ کو aid distribution کا کنٹرول سنبھالنے پر زور دیا، تاکہ بچوں کی بھوک مٹائی جاسکے۔
اقوام متحدہ نے انتباہ جاری کیا ہے کہ 2025 ستمبر تک غزہ کے تشنگی زدہ علاقوں میں مکمل قحط ممکن ہے۔
خلاصہ اور تجزیاتی نکتہ نظر
جمعہ 30 جولائی کو کم از کم 68 aid-seekers شہید ہوئے—30 خان یونس، 20 زکیم کراسنگ، جبکہ دیگر مقامات پر مزید ہلاکتیں ہوئی۔
یہ واقعات اس انسانی بحران کے دوران پیش آئے جب غذائی قلت اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی بحرانی صورت حال پیدا کر رہی تھی۔
aid distribution مراکز دوبارہ بار بار خطرناک مقامات تصور کیے جا رہے ہیں جہاں فوجی قوت کا استعمال معمول بن چکا ہے۔
بین الاقوامی دباؤ کے باوجود aid delivery ناقص، نامکمل اور پرتشدد ماحول میں جاری ہے۔
نتیجہ
غزہ میں خوراک اور امداد کے حصول کے لیے جانے والے فلسطینی شہریوں کی مسلسل ہلاکتیں، انسانی بحران کی شدت کو کئی گنا بڑھا رہی ہیں۔ بین الاقوامی برادری اور حقوق انسانی تنظیموں کی طرف سے فوری توجہ اور امدادی راستوں کی سلامتی کے لیے موثر اقدامات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ aid projects مربوط ہیں، لیکن فوری وقفے اور شہری تحفظ کے بغیر یہ سب اقدامات ناکافی اور خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔