غزہ جنگ اور معذور بچے 21 ہزار سے تجاوز کر گئے، اقوام متحدہ کا انکشاف
غزہ جنگ اور انسانی بحران: 21 ہزار معذور بچوں کی لرزہ خیز حقیقت
جنیوا: اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ میں جاری جنگ کے نتیجے میں کم از کم 21 ہزار معذور بچے سامنے آئے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جن کی زندگی کبھی پہلے جیسی نہیں ہوسکے گی۔
غزہ جنگ کا آغاز اور تباہ کن اثرات
7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل اور حماس کے درمیان شروع ہونے والی جنگ نے غزہ کی معصوم آبادی کو شدید متاثر کیا۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اب تک تقریباً 40 ہزار 500 بچوں کو چوٹیں آئیں اور ان میں سے نصف سے زائد معذوری کا شکار ہوگئے۔ ان معصوم بچوں کی دنیا تاریکی، محرومی اور تکالیف سے بھری ہوئی ہے۔
معذور افراد کے لیے انخلا ناممکن
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے دیے گئے انخلا کے احکامات نابینا اور بہرے افراد تک پہنچ ہی نہیں سکے۔ اس کی ایک دردناک مثال رفح میں دیکھی گئی جہاں ایک بہری ماں اپنے بچوں سمیت جاں بحق ہوگئیں کیونکہ وہ ہدایات نہ سن سکیں اور نہ سمجھ سکیں۔ ایسے حالات میں غزہ جنگ اور معذور بچے (Gaza war and disabled children) سب سے زیادہ غیر محفوظ نظر آتے ہیں۔
امدادی سامان کی سخت پابندیاں
جنگ کے دوران خوراک، پانی اور ادویات تک رسائی سب کے لیے مشکل ہے، لیکن سب سے زیادہ متاثر معذور افراد ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ زیادہ تر معذور افراد اب دوسروں پر انحصار کر رہے ہیں کیونکہ انہیں اپنی بنیادی ضرورتیں پوری کرنے کے وسائل میسر نہیں۔
امدادی نظام کا فرق
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ نئے قائم کیے گئے نجی امدادی نظام میں صرف 4 تقسیم پوائنٹس موجود ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے نظام کے تحت 400 پوائنٹس قائم تھے۔ اس کمی نے معذور بچوں اور دیگر ضرورت مند افراد کے لیے امداد تک پہنچنا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔
معذور افراد کی املاک اور آلات کا نقصان
ایک اور المناک پہلو یہ ہے کہ تقریباً 83 فیصد معذور افراد اپنے آلات جیسے وہیل چیئر، واکر، چھڑی اور مصنوعی اعضا کھو چکے ہیں۔ اسرائیلی حکام انہیں "ڈوئل یوز آئٹمز” قرار دے کر امدادی سامان میں شامل ہی نہیں کرتے۔ اس پالیسی نے ہزاروں معذور بچوں کو روزمرہ زندگی میں مزید مشکلات میں دھکیل دیا ہے۔
معذور بچوں کی نفسیاتی کیفیت
جسمانی معذوری کے ساتھ ساتھ ان بچوں کو شدید ذہنی دباؤ اور صدموں کا بھی سامنا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس پہلو پر زور دیا ہے کہ نفسیاتی اور ذہنی بحالی کے پروگراموں کی فوری ضرورت ہے۔ بہت سے بچے نیند میں ڈراؤنے خواب دیکھتے ہیں، خوف زدہ رہتے ہیں اور عام زندگی گزارنے سے قاصر ہیں۔
مستقبل کے خدشات
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر عالمی برادری نے فوری اقدامات نہ کیے تو یہ مسئلہ مزید سنگین شکل اختیار کر لے گا۔ لاکھوں بچے تعلیم اور صحت کی سہولیات سے محروم ہو رہے ہیں جبکہ غزہ جنگ اور معذور بچے معاشرتی اور اقتصادی بوجھ کا شکار ہو جائیں گے۔
اقوام متحدہ کی اپیل
رپورٹ کے آخر میں اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ فوری طور پر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد فراہم کی جائے، تاکہ معذور بچوں اور افراد کو سہارا دیا جا سکے۔
غزہ کی موجودہ صورتحال نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ یہ حقیقت کہ 21 ہزار سے زائد غزہ جنگ اور معذور بچے پیدا ہوگئے ہیں، عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔
اسرائیلی ناکہ بندی توڑنے کے لیے بارسلونا سے بحری جہازوں کا بیڑا غزہ کے لیے روانہ ہوا
