غزہ میں اسرائیلی مظالم جاری، شہدا کی تعداد 65 ہزار سے بڑھ گئی
غزہ ایک بار پھر خون میں نہا گیا۔ صیہونی فورسز کے تازہ فضائی اور زمینی حملوں نے درجنوں بے گناہ جانیں لے لیں۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق غزہ میں اسرائیلی مظالم کے نتیجے میں مزید 80 فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہوگئے، یوں مجموعی شہدا کی تعداد 65 ہزار 382 تک جا پہنچی ہے۔
تازہ حملے اور جانی نقصان
غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی فورسز نے غزہ کے مختلف رہائشی علاقوں کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں نہ صرف عام شہری بلکہ بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ زخمیوں میں سے کئی کی حالت تشویشناک بتائی جارہی ہے۔ یہ اعداد و شمار ایک بار پھر واضح کرتے ہیں کہ غزہ میں اسرائیلی مظالم کسی مخصوص گروہ نہیں بلکہ پورے فلسطینی عوام کے خلاف ہیں۔
انصار اللہ کا ردعمل
ادھر یمن سے انصار اللہ (حوثی) فورسز نے اسرائیل پر ڈرون حملہ کیا، جس میں دو اسرائیلی ہلاک اور 20 زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں سے 2 کی حالت تشویشناک ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ حملہ براہِ راست غزہ میں اسرائیلی مظالم کا ردعمل ہے اور اس سے خطے میں کشیدگی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔

ترک صدر اردگان کا سخت مؤقف
ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے ایک انٹرویو میں غزہ کی صورتحال کو نسل کشی قرار دیا۔ نیویارک میں اقوام متحدہ کی 80ویں جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران انہوں نے کہا کہ "غزہ میں جاری انسانی المیہ کسی اور نام سے نہیں بلکہ نسل کشی ہے، اور اس کا اصل ذمہ دار اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اب تک غزہ میں 1 لاکھ 25 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں جن میں سے بڑی تعداد کو علاج کی غرض سے ترکیہ لایا گیا ہے۔ اردگان کے مطابق دنیا کو اب آنکھیں کھولنی چاہئیں کہ غزہ میں اسرائیلی مظالم کا مقصد ایک پوری قوم کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔
شہدا اور زخمیوں کی مجموعی تعداد
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اب تک 65 ہزار 382 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جبکہ 1 لاکھ 25 ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ اسپتالوں میں طبی سہولتوں کی کمی اور ادویات کی قلت کے باعث صورتحال مزید سنگین ہو رہی ہے۔ اس المیے نے عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
حماس کے بارے میں اردگان کا موقف
اردگان نے اپنے پرانے مؤقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ حماس کو وہ دہشت گرد تنظیم نہیں بلکہ ایک مزاحمتی تحریک سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق جب وہ 20 برس قبل ترکیہ کی سیاست میں سرگرم ہوئے تھے، تب بھی یہی سوال کیا گیا تھا اور انہوں نے اسی موقف کا اعادہ کیا تھا۔ یہ بیان عالمی میڈیا میں خاصی توجہ کا باعث بنا ہے اور اس پر شدید بحث جاری ہے۔
عالمی برادری کا کردار
اگرچہ بعض ممالک نے اسرائیل کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن عملی سطح پر کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلسل مطالبہ کر رہی ہیں کہ فوری جنگ بندی ہونی چاہیے اور محصور فلسطینیوں کو ریلیف فراہم کیا جانا چاہیے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عالمی برادری کی خاموشی نے غزہ میں اسرائیلی مظالم کو مزید تقویت دی ہے۔
غزہ کی یہ تازہ صورتحال ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ کب تک معصوم شہریوں کا خون بہتا رہے گا؟ غزہ میں اسرائیلی مظالم اب ایک انسانی المیے سے بڑھ کر عالمی ضمیر کا امتحان بن چکے ہیں۔ اگر دنیا نے اب بھی فیصلہ کن اقدامات نہ کیے تو تاریخ اس بے حسی کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
غزہ جھڑپ میں اسرائیلی فوجی کمانڈر کی ہلاکت، حماس کی سخت مزاحمت










Comments 3