غزہ میں جاری اسرائیلی حملے، انسانی جانیں اور انفراسٹرکچر خطرے میں
غزہ پر اسرائیلی بمباری: صورتحال تشویشناک
حالیہ دنوں میں اسرائیلی حملے غزہ میں شدید ہو چکے ہیں، اور ان کا دائرہ اب شہری علاقوں، اسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی عمارات تک پھیل چکا ہے۔ اسرائیل کے وزیر دفاع یسرائیل کاٹز نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ کارروائیاں جاری رہیں گی جب تک حماس کو مکمل شکست نہ دے دی جائے۔
النور ٹاور کی تباہی: علامتی مقام کا انہدام
غزہ کے ایک نمایاں ٹاور “النور ٹاور” کو اسرائیلی فضائیہ نے نشانہ بنا کر زمین بوس کر دیا۔ اس عمارت میں درجنوں خاندان رہائش پذیر تھے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہو چکی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح لمحوں میں پوری عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ یہ واقعہ اسرائیلی حملے غزہ میں کی شدت اور خطرناک نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔
شہریوں کی حالت: نقل مکانی اور خوف
غزہ کے ہزاروں شہری اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے بار بار اعلان کیا جا رہا ہے کہ لوگ جنوبی علاقے کی طرف منتقل ہو جائیں، لیکن وہاں بھی محفوظ پناہ گاہیں ناپید ہیں۔ اسرائیلی حملے غزہ میں نہ صرف تباہی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ انسانیت کو بھی للکار رہے ہیں۔
یرغمالیوں کی رہائی اور فوجی موقف
اسرائیل کے مطابق یہ حملے صرف حماس کی عسکری قوت کو ختم کرنے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ مگر حقیقت میں، اسرائیلی حملے غزہ میں وسیع پیمانے پر شہری جانوں کا ضیاع کر رہے ہیں، جس پر عالمی برادری بھی اب تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔
انسانی بحران: خوراک، دوا، اور پانی کی قلت
اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں کے مطابق، غزہ میں خوراک، پینے کا پانی، بجلی اور طبی سہولیات شدید متاثر ہو چکی ہیں۔ اسپتالوں میں دوائیں ختم ہو چکی ہیں، اور ڈاکٹر مسلسل امداد کی اپیل کر رہے ہیں۔ اسرائیلی حملے غزہ میں اب صرف عسکری کارروائی نہیں، بلکہ انسانیت کی بقاء کا مسئلہ بن چکے ہیں۔
عالمی ردعمل: خاموشی یا بے بسی؟
اگرچہ کچھ ممالک جیسے ترکی، ایران، اور ملائیشیا نے سخت مؤقف اپنایا ہے، لیکن بڑی طاقتیں اب تک محض مذمتی بیانات تک محدود ہیں۔ اسرائیل کو کسی بڑی عالمی پابندی یا دباؤ کا سامنا نہیں ہے۔ اس آزاد فضا میں اسرائیلی حملے غزہ میں مزید شدت اختیار کر رہے ہیں۔
میڈیا میں یکطرفہ بیانیہ؟
بیشتر مغربی میڈیا ہاؤسز اسرائیلی موقف کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ غزہ کے عوامی بیانیے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ البتہ سوشل میڈیا پر فلسطینی صحافیوں، شہریوں اور انسانی حقوق کے کارکنان نے اسرائیلی حملے غزہ میں کے دل دہلا دینے والے مناظر پوری دنیا کو دکھا دیے ہیں۔
قانونی ماہرین کا مؤقف
بین الاقوامی قوانین کے تحت شہری آبادی کو نشانہ بنانا جنگی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دیگر تنظیموں نے ان حملوں کو غیرقانونی قرار دیا ہے۔ اسرائیلی حملے غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی تصور کیے جا رہے ہیں۔
غزہ کے بچوں کا مستقبل؟
سب سے زیادہ متاثر وہ بچے ہیں جنہوں نے ہوش سنبھالتے ہی جنگ دیکھی ہے۔ تعلیمی ادارے تباہ، کھیل کے میدان ویران اور ذہنی دباؤ حد سے زیادہ ہے۔ اگر اسرائیلی حملے غزہ میں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو ایک پوری نسل نفسیاتی طور پر تباہ ہو جائے گی۔
کیا جنگ ہی حل ہے؟
اسرائیل کو اگر واقعی امن چاہیے تو اسے عسکری کے بجائے سیاسی اور سفارتی حل تلاش کرنا ہوگا۔ اسرائیلی حملے غزہ میں وقتی فائدہ تو دے سکتے ہیں، لیکن طویل مدتی تباہی اور نفرت کا بیج بھی بو رہے ہیں۔ دنیا کو اب بولنا ہوگا، عمل کرنا ہوگا۔
غزہ جنگ اور معذور بچے: اقوام متحدہ کی لرزہ خیز رپورٹ

Comments 2