اسرائیلی بمباری کے بعد جنگ بندی کا اعلان — غزہ ایک بار پھر خون میں نہا گیا
غزہ ایک بار پھر صیہونی جارحیت کا نشانہ بنا۔ ایک دن میں 42 سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جن میں خواتین، بچے، اور بزرگ شامل ہیں۔ اس خونریز حملے کے بعد اسرائیل نے اعلان کیا کہ غزہ جنگ بندی دوبارہ نافذ کر دی گئی ہے۔
عرب میڈیا اور فلسطینی حکام کے مطابق یہ اعلان صرف عالمی دباؤ اور علاقائی ثالثی کے بعد کیا گیا، جب کہ زمینی صورتحال کچھ اور ہی بتا رہی ہے۔
شدید بمباری کا شکار خیمہ بستیاں اور پناہ گزین کیمپ
اسرائیلی فضائی حملے جنوبی غزہ میں خیمہ بستیوں، نصیرات کیمپ اور خان یونس کے شمال مغربی علاقوں میں کیے گئے، جہاں پہلے سے بے گھر شہری مقیم تھے۔ صیہونی افواج کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ حملے حماس کے عسکری ٹھکانوں پر تھے، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق:
خواتین اور بچے ملبے تلے دب گئے۔
خیموں میں سوئے افراد اچانک بمباری کا شکار بنے۔
ایمبولینس اور ریسکیو ٹیموں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق صرف آج کے حملوں میں 45 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں۔
جنگ بندی کیسے بحال ہوئی؟
ذرائع کے مطابق غزہ جنگ بندی کی بحالی میں مصر، قطر، ترکی اور امریکا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ ان ممالک نے اسرائیل پر دباؤ ڈالا کہ مزید حملے فوری بند کیے جائیں۔
فلسطینی حکام نے عرب میڈیا کو تصدیق کی ہے کہ جنگ بندی بحال ہو گئی ہے اور اب معاہدے کی خلاف ورزیوں سے بچنے کے لیے ایک منظم نگرانی کا نظام طے کیا جا رہا ہے۔

10 اکتوبر کے بعد سے کیا ہو رہا ہے؟
10 اکتوبر کو غزہ میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن اسرائیل کی جانب سے وقفے وقفے سے حملے جاری رہے۔ تازہ حملوں سے پہلے:
شہادتوں کی تعداد 98 تک پہنچ چکی تھی۔
عام شہریوں کی املاک، پناہ گاہیں اور مساجد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
متعدد ہسپتال شدید زخمیوں سے بھر چکے ہیں۔
حماس کا سخت ردعمل
حماس نے اسرائیلی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ:
"یہ حملے ہمارے اہلکاروں پر نہیں بلکہ عام شہریوں پر کیے گئے۔ اسرائیل دانستہ طور پر جنگ کو دوبارہ شروع کرنے کا بہانہ تلاش کر رہا ہے۔”
حماس کے ترجمان نے مزید کہا کہ اگر جنگ بندی کی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو جوابی اقدامات کیے جائیں گے۔
کیا جنگ بندی دیرپا ہوگی؟
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ غزہ جنگ بندی انتہائی نازک ہے۔ اگر اسرائیل کی جانب سے ایک بار پھر اشتعال انگیز اقدامات کیے گئے، تو غزہ ایک بار پھر مکمل جنگ کی طرف دھکیلا جا سکتا ہے۔
علاقائی ثالث ممالک، خاص طور پر مصر اور قطر، اس وقت دونوں فریقین کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہے ہیں، لیکن یہ جنگ بندی صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب:
اسرائیل معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کرے۔
عام شہریوں پر حملے بند کیے جائیں۔
انسانی امداد کی آزادانہ رسائی دی جائے۔
عالمی ردعمل
عالمی برادری کی جانب سے اسرائیلی حملوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے:
اقوام متحدہ نے فوری جنگ بندی کی حمایت کی۔
یورپی یونین نے شہریوں کے قتل کو ناقابل قبول قرار دیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے جنگی جرم قرار دیا ہے۔
تاہم، تاحال اسرائیل پر کوئی ٹھوس عالمی پابندی یا اقدام نہیں لیا گیا۔
اسرائیلی مؤقف
اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ:
وہ صرف "دہشتگرد اہداف” کو نشانہ بنا رہا ہے۔
حماس نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی، جس کا ردعمل دیا گیا۔
غزہ میں موجود عسکری نیٹ ورکس کو ختم کرنا ضروری ہے۔
یہ مؤقف عالمی سطح پر سخت تنقید کا نشانہ بن رہا ہے، کیونکہ حملے بچوں اور بے گناہ شہریوں کی جانیں لے رہے ہیں۔
جنگ بندی یا وقتی سکون؟
غزہ جنگ بندی کا اعلان ضرور ہو چکا ہے، لیکن زمینی حقائق اس بات کی گواہی نہیں دے رہے کہ یہ امن مستقل ہوگا۔ فلسطینی شہریوں کا کہنا ہے کہ جب تک اسرائیلی حملے بند نہیں ہوتے، تب تک کوئی بھی معاہدہ محض کاغذی حیثیت رکھتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ:
کیا عالمی برادری صرف مذمت تک محدود رہے گی؟
کیا اسرائیل کو جنگی جرائم پر جوابدہ ٹھہرایا جائے گا؟
کیا غزہ جنگ بندی واقعی دیرپا امن کا راستہ بن سکتی ہے؟
وقت ہی ان سوالات کے جوابات دے گا، لیکن فی الحال غزہ کے آسمان پر امن کے بجائے بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے۔