گھی اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ — عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ
پاکستان میں مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا، روزمرہ استعمال کی بنیادی اشیاء کی قیمتیں ایک بار پھر آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ اوپن مارکیٹ میں گھی اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ نے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق گھی درجہ اول 550 روپے فی کلوگرام اور آئل 560 روپے فی کلوگرام میں فروخت کیا جا رہا ہے، جو کہ عوام کی قوتِ خرید پر شدید اثر ڈال رہا ہے۔
اوپن مارکیٹ میں گھی اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ برقرار
اوپن مارکیٹ میں گھی اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ کئی ہفتوں سے جاری ہے۔ تاجروں کے مطابق، عالمی منڈی میں پام آئل کی قیمتوں میں اضافے اور ڈالر کے اتار چڑھاؤ نے مقامی مارکیٹ پر براہِ راست اثر ڈالا ہے۔
ایک تاجر نے بتایا کہ "درآمدی لاگت بڑھنے کے باعث ہمیں مجبورا قیمتیں بڑھانی پڑی ہیں، ورنہ نقصان برداشت کرنا ممکن نہیں۔”
چاول، چائے اور کافی بھی مہنگی
مہنگائی کا اثر صرف گھی اور آئل تک محدود نہیں رہا بلکہ دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں۔
چاول کی قیمت 380 سے 560 روپے فی کلوگرام تک جا پہنچی ہے۔ چائے کی 800 گرام کی پیکنگ اب 1780 روپے میں فروخت ہو رہی ہے جبکہ مشہور کمپنی کی 50 گرام کافی 150 روپے اضافے کے بعد 1400 روپے کی ہو چکی ہے۔
یہ اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ گھی اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ دیگر ضروری اشیاء بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔
پیک فوڈز میں وزن کم، قیمت زیادہ
لاہور کی ایک معروف فوڈ کمپنی نے اپنی مختلف چاکلیٹ مصنوعات کا وزن کم کر کے قیمت بڑھا دی ہے۔ مثال کے طور پر، پہلے جو چاکلیٹ 200 گرام میں دستیاب تھی، اب وہ 160 گرام کی کر دی گئی ہے مگر قیمت 40 سے 45 روپے زیادہ لی جا رہی ہے۔
یہ رجحان "شرنک فلیشن” کہلاتا ہے، جہاں وزن کم کر کے قیمت برقرار رکھی جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھی گھی اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ جیسی مہنگائی کا ہی ایک نیا طریقہ ہے۔
عوامی ردِعمل اور مشکلات
شہریوں نے مہنگائی پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے۔ ایک شہری نے بتایا:
"تنخواہیں وہی ہیں، مگر اخراجات دوگنے ہو گئے ہیں۔ گھی اور آئل خریدنا اب مشکل ہو گیا ہے۔”
کئی خاندانوں نے بتایا کہ انہوں نے کھانے پکانے کے طریقے بدل لیے ہیں تاکہ گھی اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ کے اثرات سے بچ سکیں۔ کچھ لوگ اب سبزیوں یا دہی کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں تاکہ تیل کی کھپت کم ہو۔
ماہرین کی رائے
ماہرِ معاشیات کے مطابق، گھی اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ صرف وقتی نہیں بلکہ عالمی مارکیٹ کی غیر یقینی صورتحال کے باعث طویل مدت تک برقرار رہ سکتا ہے۔
ڈالر کی قدر میں اضافہ، ایندھن کی قیمتیں، اور درآمدی اخراجات — یہ سب عناصر گھی، آئل اور دیگر فوڈ آئٹمز کو مہنگا کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو مقامی سطح پر خوردنی تیل کی پیداوار بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ درآمدی انحصار کم کیا جا سکے۔
حکومت کی خاموشی اور کنٹرول کمیٹیوں کی ناکامی
قیمتوں کے تعین میں انتظامیہ کا کردار ایک بڑا سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ شہریوں کے مطابق، پرائس کنٹرول کمیٹیاں غیر فعال ہیں اور مارکیٹ میں گھی اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ روکنے میں مکمل ناکام رہی ہیں۔
کئی جگہوں پر دکاندار من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں جبکہ حکومتی اہلکار صرف کاغذی کارروائی تک محدود دکھائی دیتے ہیں۔
متبادل ذرائع کی تلاش
بعض ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ گھی اور آئل کے بجائے متبادل ذرائع جیسے سرسوں کا تیل یا زیتون کا تیل محدود مقدار میں استعمال کرنا زیادہ صحت مند ثابت ہو سکتا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان متبادل تیلوں کی قیمتیں بھی عام شہری کی پہنچ سے باہر جا چکی ہیں، اور گھی اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ نے کھانے پینے کے بنیادی اصولوں کو بھی متاثر کر دیا ہے۔
مستقبل کے خدشات
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے درآمدی پالیسیوں میں نرمی نہ کی تو آنے والے مہینوں میں گھی اور آئل کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ ڈالر کی قدر میں معمولی تبدیلی بھی مارکیٹ میں بڑی اتار چڑھاؤ پیدا کر سکتی ہے، جس کا براہ راست اثر عوام پر پڑے گا۔
پیٹرول کے بعد گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں اضافہ، عوام پریشان
موجودہ حالات میں عوام کو مہنگائی کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔
گھی اور آئل کی قیمتوں میں اضافہ نے نہ صرف متوسط طبقے بلکہ نچلے طبقے کی زندگی بھی مشکل بنا دی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری اقدامات کرے، درآمدی انحصار کم کرے اور پرائس کنٹرول میکانزم کو مؤثر بنائے تاکہ عام شہریوں کو ریلیف مل سکے۔