حماس کا غزہ امن منصوبے پر اعتراض اور ترامیم کا مطالبہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کردہ غزہ امن منصوبہ پر فلسطینی تنظیم حماس نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اس کی بعض شقوں میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق، حماس کو سب سے زیادہ اعتراضات غیر مسلح ہونے اور اس کے رہنماؤں کی بے دخلی سے متعلق شقوں پر ہیں۔ تنظیم نے اس سلسلے میں دوحہ، قطر میں ترک، مصری اور قطری حکام سے ملاقات کی ہے تاکہ غزہ امن منصوبہ کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کی جائے۔
غزہ امن منصوبہ کا پس منظر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں غزہ امن منصوبہ کا اعلان کیا۔ اس منصوبے میں جنگ بندی، حماس کے ہاتھوں یرغمالیوں کی 72 گھنٹوں کے اندر رہائی، حماس کا مکمل غیر مسلح ہونا، اور غزہ سے اسرائیلی فوج کا بتدریج انخلا شامل ہے۔ تاہم، منصوبے میں فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوئی ٹھوس ضمانت شامل نہیں ہے، جو کہ حماس کے لیے ایک اہم نکتہ ہے۔
اسرائیلی فوج نے اکتوبر 2023 سے غزہ میں وسیع پیمانے پر فوجی کارروائیاں کی ہیں، جن کے نتیجے میں 66,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ اس بمباری نے غزہ کو ناقابل رہائش بنا دیا ہے، جس سے قحط اور بیماریوں نے جنم لیا۔ اس تناظر میں غزہ امن منصوبہ فلسطینیوں کے لیے ایک اہم لیکن متنازعہ پیشکش ہے۔
حماس کے مطالبات
حماس نے غزہ امن منصوبہ کی کچھ شقوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم غیر مسلح ہونے اور مزاحمتی دھڑوں کے رہنماؤں کی بے دخلی سے متعلق شقوں میں ترمیم کا مطالبہ کر رہی ہے۔ حماس کے رہنما غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلا اور اپنے رہنماؤں کی حفاظت کے لیے بین الاقوامی ضمانتیں مانگ رہے ہیں۔ وہ اس بات کی یقین دہانی چاہتے ہیں کہ نہ تو غزہ کے اندر اور نہ ہی باہر ان کے رہنماؤں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق، گزشتہ ماہ دوحہ میں جنگ بندی کی تجویز پر غور کے لیے منعقد ہونے والے ایک اجلاس پر اسرائیلی حملے میں 6 افراد شہید ہوئے تھے، جس کے بعد حماس مزید محتاط ہو گیا ہے۔ یہ واقعہ غزہ امن منصوبہ پر مذاکرات کے دوران تنظیم کے عدم تحفظ کے احساس کو مزید اجاگر کرتا ہے۔
دوحہ میں مذاکرات
حماس کے مذاکرات کاروں نے دوحہ میں ترک، مصری اور قطری حکام سے ملاقات کی ہے۔ ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے، اور حماس کو غزہ امن منصوبہ پر حتمی جواب دینے کے لیے زیادہ سے زیادہ دو یا تین دن درکار ہیں۔ تنظیم دیگر علاقائی اور عرب فریقوں کے ساتھ بھی رابطے میں ہے، لیکن اس حوالے سے مزید تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔
دوحہ مذاکرات میں حماس نے اپنے تحفظات کو واضح کیا اور غزہ امن منصوبہ کے تحت پیش کردہ شرائط کو فلسطینی عوام کے حقوق کے منافی قرار دیا۔ خاص طور پر غیر مسلح ہونے کی شرط کو حماس اپنی مزاحمتی تحریک کے خلاف ایک چال کے طور پر دیکھتا ہے۔
حماس کے اندرونی اختلافات
ذرائع کے مطابق، حماس کی صفوں میں غزہ امن منصوبہ پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ایک دھڑا اس منصوبے کو بغیر کسی شرط کے قبول کرنے کے حق میں ہے تاکہ فوری جنگ بندی ممکن ہو سکے۔ یہ دھڑا سمجھتا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی ضمانت کے تحت جنگ بندی سے فلسطینی عوام کو فوری ریلیف مل سکتا ہے، بشرطیکہ ثالث اسرائیل کو منصوبے پر عمل درآمد کے لیے آمادہ کریں۔
دوسری جانب، ایک اور دھڑا غیر مسلح ہونے اور فلسطینی رہنماؤں کی بے دخلی سے متعلق شقوں پر شدید تحفظات رکھتا ہے۔ یہ دھڑا ایک مشروط معاہدے کا خواہاں ہے جس میں حماس اور دیگر مزاحمتی گروپوں کے مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ غزہ امن منصوبہ کے تحت غیر مسلح ہونا غزہ پر اسرائیلی قبضے کو قانونی حیثیت دینے اور مزاحمت کو جرم قرار دینے کے مترادف ہے۔
کچھ گروپ منصوبے کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں، لیکن مذاکرات جاری ہیں، اور ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ چند روز میں صورتحال واضح ہو جائے گی۔
فلسطینی عوام کے لیے چیلنجز
غزہ امن منصوبہ فلسطینی عوام کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس کے نفاذ میں کئی چیلنجز ہیں۔ غزہ میں گزشتہ دو سال سے جاری اسرائیلی جارحیت نے علاقے کو تباہ کر دیا ہے۔ مسلسل بمباری نے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا، اور قحط اور بیماریوں نے فلسطینی عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ اس صورتحال میں، غزہ امن منصوبہ کو فلسطینیوں کے لیے ایک امید کی کرن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، لیکن اس کی شرائط پر عمل درآمد ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔
بین الاقوامی کردار
غزہ امن منصوبہ کے تناظر میں ترکی، مصر اور قطر جیسے ممالک اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ ممالک حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ تاہم، اسرائیل کی جانب سے مذاکرات کے دوران حملوں نے اعتماد کے فقدان کو جنم دیا ہے۔ حماس کی جانب سے بین الاقوامی ضمانتوں کا مطالبہ اسی عدم اعتماد کا نتیجہ ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ غزہ امن منصوبہ : فلسطین میں امن فوج بھیجنے کا فیصلہ پاکستانی قیادت کرے گی، اسحٰق ڈار
مستقبل کے امکانات
غزہ امن منصوبہ کے نفاذ سے فلسطینی عوام کے لیے امن اور استحکام کا امکان پیدا ہو سکتا ہے، لیکن اس کے لیے تمام فریقوں کے درمیان اعتماد کی بحالی ضروری ہے۔ حماس کے مطالبات اور اسرائیل کی پوزیشن کے درمیان خلیج کو پاٹنا ایک مشکل مرحلہ ہے۔ آئندہ چند روز میں مذاکرات کے نتائج سے اس منصوبے کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ہوگا۔










Comments 1