ہنگو حملہ میں شہید ایس پی اسد زبیر کے پاس بلٹ پروف گاڑی نہیں تھی: ذرائع
ضلع ہنگو ایک بار پھر دہشت گردوں کے نشانے پر آگیا۔
24 اکتوبر کے المناک ہنگو حملہ میں شہید ہونے والے ایس پی اسد زبیر کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ حساس مقام پر بغیر بلٹ پروف گاڑی کے گئے تھے۔
ذرائع کے مطابق، اگر ان کے پاس بلٹ پروف گاڑی ہوتی تو نقصان اتنا بڑا نہ ہوتا۔

حساس مقام کا دورہ اور حملے کی تفصیل
ذرائع کے مطابق، ایس پی اسد زبیر کو اطلاع ملی تھی کہ ضلع ہنگو کی ایک چوکی پر دہشت گردوں نے حملہ کیا ہے۔
وہ فوری طور پر اپنی ٹیم کے ہمراہ جائے وقوعہ کی طرف روانہ ہوئے۔
اسی دوران ان کی گاڑی کو سڑک کنارے نصب شدہ آئی ای ڈی سے نشانہ بنایا گیا۔
پہلا دھماکہ چوکی کے قریب ہوا، جبکہ دوسرا دھماکہ اس وقت ہوا جب ایس پی اسد زبیر جائے وقوعہ پر پہنچنے والے تھے۔
ہنگو حملہ کے نتیجے میں ایس پی اسد زبیر اور ان کے دو گن مین موقع پر شہید ہو گئے۔
ذرائع کی رپورٹ: بلٹ پروف گاڑی نہ ہونے کا نقصان
ذرائع کے مطابق، شہید ایس پی کے پاس اس روز بلٹ پروف گاڑی موجود نہیں تھی۔
انہوں نے عام گاڑی میں جائے وقوعہ کا دورہ کیا کیونکہ ضلع میں صرف ایک بلٹ پروف گاڑی موجود تھی، جو اُس وقت ڈی پی او ہنگو کے زیر استعمال تھی۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ:
“ضلع ہنگو جیسے حساس علاقے میں کم از کم تین بلٹ پروف گاڑیوں کی ضرورت ہے، مگر موجودہ وقت میں صرف ایک دستیاب ہے۔”
یہ بھی بتایا گیا کہ چند سال قبل اسی علاقے میں ایک ایس ایچ او کو بھی دہشت گردوں نے نشانہ بنایا تھا، جبکہ کچھ عرصہ قبل ڈی پی او ہنگو پر بھی حملے کی کوشش کی گئی تھی۔
ہنگو حملہ: دہشت گردی کے خطرات برقرار
ہنگو کا شمار خیبر پختونخوا کے ان اضلاع میں ہوتا ہے جہاں دہشت گردی کے خطرات اب بھی موجود ہیں۔
گزشتہ چند برسوں میں یہاں کئی بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
سیکیورٹی اداروں کے مطابق، ہنگو حملہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا، جس میں جدید دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا۔

تفتیشی ذرائع کے مطابق، ابتدائی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کارروائی کسی کالعدم تنظیم کی جانب سے کی گئی، جس کا مقصد پولیس افسران کو نشانہ بنانا تھا۔
پولیس ذرائع: حفاظتی سہولیات کی کمی
ذرائع کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا پولیس کو عرصے سے بلٹ پروف گاڑیوں کی کمی کا سامنا ہے۔
زیادہ تر اضلاع میں صرف ڈی پی اوز کے پاس بلٹ پروف گاڑیاں ہیں، جب کہ ڈی ایس پی اور ایس پی سطح کے افسران کو عام گاڑیاں استعمال کرنا پڑتی ہیں۔
ایک سینیئر پولیس افسر نے بتایا کہ:
“ہنگو حملہ نے ایک بار پھر ظاہر کر دیا ہے کہ اگر افسران کو مناسب حفاظتی وسائل دیے جائیں تو جانی نقصان کم کیا جا سکتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے حساس اضلاع — ہنگو، شمالی وزیرستان، بنوں، اور ڈیرہ اسماعیل خان — میں کم از کم 50 نئی بلٹ پروف گاڑیاں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت کا ردعمل
اس حوالے سے پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے ترجمان عدیل اقبال نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت پولیس کو جدید سہولیات فراہم کر رہی ہے۔
ان کے مطابق،
“خیبر پختونخوا پولیس کو جدید اسلحہ اور گاڑیاں فراہم کی گئی ہیں، اور جہاں مزید بلٹ پروف گاڑیوں کی ضرورت ہوگی، وہاں بھی دی جائیں گی۔”
انہوں نے کہا کہ حکومت شہداء کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے اور پولیس فورس کی استعداد کار بڑھانے کے لیے مزید اقدامات کر رہی ہے۔
شہید ایس پی اسد زبیر: فرض کی راہ میں قربانی
ایس پی اسد زبیر کو ان کی بہادری اور فرض شناسی کے لیے پولیس حلقوں میں بے حد عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
انہوں نے کئی اہم کارروائیوں میں حصہ لیا اور دہشت گردوں کے خلاف نمایاں کردار ادا کیا۔
ہنگو حملہ کے دوران ان کی شہادت نے ایک بار پھر اس بات کو اجاگر کیا کہ خیبر پختونخوا پولیس دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن پر لڑ رہی ہے۔
ان کے ساتھیوں کے مطابق، وہ ہمیشہ اپنی ٹیم کے ساتھ بنفسِ نفیس میدان میں موجود رہتے تھے۔
شہید کے اہلِ خانہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے مشن کو جاری رکھا جائے اور پولیس افسران کو بہتر حفاظتی وسائل دیے جائیں۔
ہنگو میں سیکیورٹی انتظامات کی صورتحال
ہنگو کو حساس ضلع قرار دیا گیا ہے، جہاں پولیس اور سیکیورٹی ادارے مسلسل گشت کرتے ہیں۔
تاہم، ذرائع کے مطابق، علاقے کی جغرافیائی ساخت اور دشوار گزار راستے دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہنگو حملہ کے بعد سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے اور مشکوک سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔
ماہرین کی رائے: حفاظتی پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت
سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس افسران کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں اور جدید آلات ناگزیر ہو چکے ہیں۔
اگر حکومت فوری اقدامات نہ کرے تو ایسے سانحات دوبارہ پیش آ سکتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق، ہنگو حملہ ایک وارننگ ہے کہ دہشت گردوں کی سرگرمیاں دوبارہ بڑھ رہی ہیں۔
عوامی ردعمل
عوام نے ایس پی اسد زبیر کی شہادت پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر شہریوں نے مطالبہ کیا کہ پولیس فورس کو بہتر وسائل دیے جائیں تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام ہو سکے۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ایس پی کے پاس بلٹ پروف گاڑی ہوتی تو شاید وہ آج زندہ ہوتے۔
ہنگو پولیس چیک پوسٹ پر بم دھماکہ: ایس پی آپریشنز سمیت 3 پولیس اہلکار شہید
ہنگو حملہ نے ایک بار پھر خیبر پختونخوا میں امن و امان کے چیلنجز کو نمایاں کر دیا ہے۔
شہید ایس پی اسد زبیر کی قربانی ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی باقی ہے کہ پولیس افسران کو کب مکمل حفاظتی سہولیات فراہم کی جائیں گی؟
حکومت اور سیکیورٹی اداروں کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ اس سانحے سے سبق سیکھ کر مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے جامع منصوبہ بندی کریں۔









