آئی ایم ایف پاکستان سیلاب پر افسوس کا اظہار، مالیاتی پالیسیوں کا جائزہ جاری
پاکستان میں سیلاب سے اموات پر آئی ایم ایف کا اظہارِ افسوس – ہمدردی سے عملی اقدام تک
پاکستان ایک بار پھر قدرتی آفت کا شکار ہوا ہے۔ شدید مون سون بارشوں کے نتیجے میں ملک کے مختلف حصوں، خصوصاً بلوچستان، خیبرپختونخوا، سندھ اور جنوبی پنجاب میں تباہ کن سیلاب آئے ہیں۔ ان سیلابوں نے نہ صرف ہزاروں افراد کو بے گھر کیا بلکہ درجنوں قیمتی جانیں بھی نگل لیں۔ کھڑی فصلیں، سڑکیں، پل اور بنیادی ڈھانچہ شدید متاثر ہوا ہے، جبکہ لاکھوں افراد کی زندگی مفلوج ہو گئی ہے۔
ایسے نازک وقت میں عالمی برادری کی جانب سے ہمدردی اور امداد کے اعلانات سامنے آ رہے ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی پاکستان میں سیلابی تباہی اور انسانی جانوں کے ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ آئی ایم ایف کے نمائندے ماہر بینیجی نے پاکستان کے عوام کے ساتھ اظہارِ تعزیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ صورتحال کا مسلسل جائزہ لے رہا ہے۔
آئی ایم ایف کا انسانی ہمدردی پر مبنی ردعمل
ماہر بینیجی نے ایک بیان میں کہا:
"پاکستان میں مون سون بارشوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصان کا ہمیں افسوس ہے۔ ہم پاکستانی عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ متاثرہ افراد کے لیے ہماری دعائیں اور نیک تمنائیں ہیں۔”
یہ بیان صرف رسمی تعزیت نہیں بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ آئی ایم ایف ایک مالیاتی ادارہ ہونے کے باوجود انسانی المیے سے لاتعلق نہیں رہتا۔ یہ حقیقت کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں قدرتی آفات فوری طور پر معاشی و سماجی بحران پیدا کرتی ہیں، عالمی اداروں کو بھی متحرک کرتی ہے۔
سیلاب سے جانی و مالی نقصان – صورتحال کتنی سنگین ہے؟
اب تک سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق، حالیہ بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں:
درجنوں افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہو چکے ہیں۔
ہزاروں مکانات منہدم یا شدید متاثر ہو چکے ہیں۔
زرعی زمینیں زیرِ آب آ چکی ہیں، جس سے خوراک کا بحران جنم لے سکتا ہے۔
تعلیمی ادارے، اسپتال اور سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں، جس سے بنیادی سہولیات تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔
ایسی صورتحال میں نہ صرف فوری ریلیف کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ طویل مدتی بحالی کے لیے بھی سنجیدہ منصوبہ بندی درکار ہے۔
مالیاتی چیلنجز – کیا پاکستان تیار ہے؟
ماہر بینیجی نے اپنے بیان میں ایک نہایت اہم نکتہ اٹھایا، کہ:
"توسیعی فنڈ سہولت (EFF) مشن یہ جاننے کے لیے کام کرے گا کہ آیا پاکستان کی مالیاتی پالیسیاں اور ایمرجنسی سے نمٹنے کی صلاحیت اس بحران کا مؤثر مقابلہ کرنے کے قابل ہیں یا نہیں۔”
یہ بات اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ آئی ایم ایف نہ صرف پاکستان کو مالیاتی مدد فراہم کرتا ہے بلکہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ حکومت کس حد تک ان وسائل کا درست استعمال کر رہی ہے۔
سیلابی آفات جیسے بحران کے دوران حکومت کو درکار ہوتا ہے:
- ایمرجنسی بجٹ،
- فوری امدادی فنڈز،
- بنیادی ڈھانچے کی بحالی،
- زرعی شعبے کی بحالی،
- اور متاثرہ خاندانوں کی مالی مدد۔
اگر حکومت کی موجودہ مالیاتی پالیسیز ان تقاضوں کو پورا نہیں کر سکتیں تو آئی ایم ایف جیسے اداروں سے ری اسٹرکچرنگ یا اضافی معاونت کی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔
ای ایف ایف اور آر ایس ایف – پاکستان کے لیے کیا معانی رکھتے ہیں؟
ماہر بینیجی نے کہا کہ:
"ای ایف ایف (Extended Fund Facility) اور آر ایس ایف (Resilience and Sustainability Facility) جیسی سہولیات بیرونی اور مالی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔”
ای ایف ایف کا مقصد درمیانی مدت کے لیے مالیاتی استحکام اور معاشی اصلاحات کو سہارا دینا ہے۔
آر ایس ایف کا مقصد خاص طور پر ماحولیاتی خطرات، موسمیاتی تبدیلی، اور قدرتی آفات کے اثرات سے بچاؤ کے لیے رکن ممالک کو معاونت فراہم کرنا ہے۔
پاکستان جیسے ملک کے لیے جہاں ہر سال مون سون خطرہ بن کر آتا ہے، آر ایس ایف ایک نہایت اہم سہولت ثابت ہو سکتی ہے، بشرطیکہ اس تک رسائی کے لیے مناسب مالیاتی حکمتِ عملی تیار کی جائے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت – ریلیف کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ
پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے وزارتِ خزانہ کو ہدایت دی ہے کہ وہ سیلاب متاثرین کے لیے بجلی کے بلوں میں ریلیف دینے کے لیے آئی ایم ایف سے رابطہ کریں۔
یہ اقدام اس لیے اہم ہے کیونکہ:
آئی ایم ایف کے ساتھ جاری معاہدے میں توانائی سبسڈی پر سخت شرائط موجود ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں عوام بجلی کے بل ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔
بجلی کی قیمتوں میں ریلیف دیے بغیر متاثرہ علاقوں میں بحالی ممکن نہیں۔
یہاں حکومت کو سفارتی مہارت کے ساتھ آئی ایم ایف کو قائل کرنا ہو گا کہ انسانی بنیادوں پر وقتی ریلیف ضروری ہے، جو معاشی نظم و ضبط کے خلاف نہیں بلکہ اس کا لازمی جزو ہے۔
پاکستان کا امتحان: بحالی، شفافیت اور مستقبل کی تیاری
پاکستان کے لیے اب سب سے بڑا چیلنج صرف امداد حاصل کرنا نہیں، بلکہ اسے شفاف طریقے سے استعمال کرنا ہے۔ ماضی میں بدعنوانی، ناقص منصوبہ بندی، اور وسائل کی غیر مؤثر تقسیم نے بحالی کے عمل کو سست یا ناکام بنایا۔
اس بار:
تمام فنڈز کا حساب رکھنا ہوگا،
امدادی سامان کی منصفانہ تقسیم یقینی بنانی ہوگی،
اور مقامی سطح پر نگرانی کا موثر نظام قائم کرنا ہوگا۔
اسی صورت میں عالمی ادارے جیسے آئی ایم ایف کا اعتماد برقرار رہ سکتا ہے۔
آزمائش کی گھڑی میں عالمی ہمدردی اور قومی حکمتِ عملی کی ضرورت
آئی ایم ایف کا پاکستان میں حالیہ سیلاب پر افسوس اور تعزیت کا اظہار ایک اہم علامت ہے کہ عالمی ادارے انسانی تکالیف کے لمحوں میں صرف قرض دہندہ نہیں بلکہ شراکت دار بھی بن سکتے ہیں۔
تاہم، اس ہمدردی کو عملی معاونت میں بدلنے کے لیے حکومتِ پاکستان کو:
سنجیدہ مالیاتی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی،
عالمی اداروں سے شفاف مذاکرات کرنے ہوں گے،
اور عوام کو فوری ریلیف فراہم کرنا ہو گا۔
پاکستان میں ہر سال مون سون ایک آزمائش بن کر آتا ہے۔ اگر ہم نے ابھی سے منصوبہ بندی نہ کی، تو ہر سال ہم صرف افسوس اور تعزیت کے بیانات ہی سنیں گے، جبکہ لاکھوں افراد دوبارہ تباہی کا شکار ہوتے رہیں گے۔

Comments 1