قومی اسمبلی میں ہنگامہ: سینئر صحافی اعجاز احمد سے عمران خان کی بدسلوکی پر پارلیمنٹری رپورٹرز کا واک آؤٹ
اسلام آباد — پاکستان کی سیاست اور صحافت ایک بار پھر آمنے سامنے آ گئیں جب پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں صحافیوں کے ساتھ مبینہ بدسلوکی پر بڑا ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے سینئر صحافی اعجاز احمد کے ساتھ غیر شائستہ رویہ اپنانے کے الزامات کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹری رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کردیا۔ اس اقدام نے نہ صرف ایوان کے ماحول کو تلخ بنایا بلکہ ملک بھر میں سیاست اور صحافت کے تعلقات پر ایک نئی بحث بھی چھیڑ دی۔
صحافی اعجاز احمد سے عمران خان کی بدسلوکی کا واقعہ کیسے پیش آیا؟
اطلاعات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت شروع ہوا تو اجلاس کے آغاز پر ہی پارلیمنٹری رپورٹرز ایسوسی ایشن کے اراکین نے ہال سے باہر جانے کا فیصلہ کیا۔ صحافیوں کا موقف تھا کہ ان کے سینئر ساتھی اعجاز احمد کو اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے سوال پوچھنے پر نازیبا زبان کا نشانہ بنایا گیا اور بعد ازاں سوشل میڈیا پر بھی انہیں سخت ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
خود اعجاز احمد نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ وہ اسپیکر کی اجازت اور سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد اڈیالہ جیل گئے تھے تاکہ عمران خان سے حالات اور ملاقات کے حوالے سے معلومات لے سکیں، مگر سوال پوچھنے پر انہیں گالی گلوچ کا سامنا کرنا پڑا۔
اسپیکر اور حکومت کا ردعمل
ایوان میں پیدا ہونے والی کشیدگی پر اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو ہدایت دی کہ وہ رپورٹرز سے مذاکرات کریں اور معاملے کو سلجھانے کی کوشش کریں۔ اسپیکر ایاز صادق نے ایوان میں بتایا کہ صحافیوں نے اس معاملے پر باضابطہ تحریری شکایت جمع کرائی ہے جس پر کارروائی ہونا ضروری ہے۔
وزیر قانون نے اعتراف کیا کہ صحافیوں کا احتجاج ان کا حق ہے اور صحافت و سیاست کا ایک گہرا رشتہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحافی حکومت اور سیاستدانوں کا احتساب کرتے ہیں اور ہمیں یہ تنقید برداشت کرنی چاہیے۔ نذیر تارڑ نے بتایا کہ جیل میں واقعی صحافی اعجاز احمد سے بدسلوکی ہوئی لیکن انہوں نے براہ راست عمران خان کا نام لینے سے گریز کیا۔

صحافی اعجاز احمد کا مؤقف
وقفے کے بعد اعجاز احمد (aijaz ahmad journalist)نے خود ایوان میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسپیکر کی درخواست پر اڈیالہ جیل گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دو بڑے مطالبات سامنے آئے:
یہ وضاحت کی جائے کہ اپوزیشن وفد کے ہمراہ جیل میں ان سے کوئی پی ٹی آئی رکن نہیں ملا۔
اس واقعے پر ایک قرارداد منظور کی جائے تاکہ ان کا موقف ریکارڈ پر آجائے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ صحافی اعجاز احمد سے عمران خان کی بدسلوکی کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر ان کے خلاف مہم شروع ہوگئی۔ مختلف پوسٹس اور ٹرینڈز میں انہیں غدار اور ایجنٹ قرار دے کر شدید تنقید کی گئی۔
شازیہ مری اور دیگر ارکان کی حمایت
پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے اپنے خطاب میں اعجاز احمد کو ایک باوقار اور غیر جانبدار صحافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اختلاف رائے اپنی جگہ، لیکن کسی صحافی کو سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مہم کا نشانہ بنانا قابل مذمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صحافی مسائل کو بے نقاب کرتے ہیں اور اس دوران سخت مشکلات کا سامنا کرتے ہیں، لیکن افسوس کہ ہم ان کے تحفظ کے معاملے میں اکثر خاموش رہتے ہیں۔
صحافی اعجاز احمد سے عمران خان کی بدسلوکی پرایم کیو ایم کا ردعمل
ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی سید امین الحق نے بھی صحافی اعجاز احمد سے عمران خان کی بدسلوکی کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو سوال کرنے کا حق ہے، اگر کوئی جواب نہیں دینا چاہتا تو نہ دے لیکن بدزبانی، دھمکی اور ٹرولنگ جمہوری اقدار کے منافی ہیں۔ ان کے مطابق سوشل میڈیا پر نہ صرف اعجاز احمد بلکہ ان کے اہل خانہ کو بھی نشانہ بنایا گیا جو انتہائی خطرناک رجحان ہے۔
قرارداد کی منظوری اور ایوان میں کشیدگی
بعد ازاں ایوان میں ایک قرارداد پیش کی گئی جس میں صحافی اعجاز احمد سے عمران خان کی بدسلوکی اور سوشل میڈیا مہم کی مذمت کی گئی۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ صحافیوں کو فوری تحفظ دیا جائے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھ میں اینکر پرسن امتیاز میر کے قتل کی بھی مذمت کی گئی اور اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے اس قرارداد کی مخالفت کی اور کہا کہ یہ ایوان کے ماحول کو مزید خراب کرے گی۔ تاہم ووٹنگ کے بعد قرارداد منظور کرلی گئی۔
اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی عوامی اسمبلی – بڑا احتجاجی فیصلہ
سیاست اور صحافت کا تناؤ
یہ پہلا موقع نہیں کہ پاکستان میں سیاستدان اور صحافی آمنے سامنے آئے ہوں۔ ماضی میں بھی صحافیوں کو مختلف حکومتوں کے ادوار میں دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا رہا ہے۔ عمران خان اور میڈیا کا تعلق ہمیشہ تنازعات کا شکار رہا ہے۔ کبھی صحافیوں کو "لفافہ” کہہ کر تنقید کی گئی اور کبھی صحافتی اداروں پر بلیک میلنگ کے الزامات لگائے گئے۔
اس واقعے نے ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیا ہے کہ کیا پاکستان میں صحافی آزادانہ طور پر سوال کر سکتے ہیں یا پھر انہیں سیاستدانوں کی ناراضی اور کارکنان کی ٹرولنگ کا سامنا کرنا پڑے گا؟
مستقبل کے خدشات اور صحافیوں کے مطالبات
پارلیمنٹری رپورٹرز ایسوسی ایشن نے واضح کیا ہے کہ اگر صحافیوں کے تحفظ اور عزت نفس کو یقینی نہ بنایا گیا تو وہ مزید سخت اقدامات کریں گے۔ صحافی برادری کا کہنا ہے کہ حکومت، اپوزیشن اور تمام سیاسی قوتوں کو صحافت کا احترام کرنا ہوگا، ورنہ یہ رویے نہ صرف جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہیں بلکہ ملک میں آزاد صحافت کے وجود کے لیے بھی خطرہ ہیں۔
تجزیہ
صحافی اعجاز احمد سے عمران خان کی بدسلوکی کا معاملہ بظاہر ایک صحافی اور ایک سیاستدان کے درمیان تلخ کلامی کا ہے مگر اس نے قومی اسمبلی اور پورے میڈیا میں ہلچل پیدا کردی۔ اس واقعے نے اس حقیقت کو مزید اجاگر کردیا کہ پاکستان میں سیاست اور صحافت کے درمیان تعلقات کس حد تک نازک اور تناؤ کا شکار ہیں۔
ایک طرف سیاستدان چاہتے ہیں کہ میڈیا ان کا مؤقف اجاگر کرے، لیکن دوسری طرف جب سوالات سخت ہوں تو اکثر صحافی نشانے پر آ جاتے ہیں۔ یہی رویہ جمہوریت اور آزادی صحافت کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔
صحافی اعجاز احمد سے عمران خان کی بدسلوکی محض ایک واقعہ نہیں بلکہ پاکستان میں میڈیا اور سیاست کے پیچیدہ رشتے کی عکاسی ہے۔ صحافیوں کے ساتھ بدسلوکی اور سوشل میڈیا پر مہم نہ صرف ان کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہے بلکہ جمہوری اقدار کو بھی کمزور کرتی ہے۔
اب یہ حکومت اور اپوزیشن دونوں پر منحصر ہے کہ وہ صحافت کے احترام اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کریں۔ بصورت دیگر یہ کشمکش مستقبل میں مزید شدت اختیار کر سکتی ہے اور ملک میں آزادی اظہار رائے کے حوالے سے نئے سوالات کھڑے کر دے گی۔
The National Assembly adopted a resolution condemning the inappropriate remarks made by former Prime Minister Imran Khan against senior journalist Ijaz Ahmed. The House demanded that measures be taken to ensure Mr. Ijaz Ahmed’s protection. The resolution also condemned the… pic.twitter.com/Evttomnrds
— National Assembly 🇵🇰 (@NAofPakistan) September 29, 2025










Comments 1