اسحاق ڈار دفاعی معاہدہ:سعودی عرب اور دیگر ممالک کی شمولیت کا امکان
پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ: علاقائی یکجہتی کی جانب ایک اہم پیش رفت
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدہ صرف دو ممالک کے درمیان ایک اسٹریٹیجک تعلق کا اظہار نہیں، بلکہ یہ ایک ایسے خطے کی علامت بنتا جا رہا ہے جہاں مسلمان ممالک آپس میں دفاع، تعاون اور اتحاد کے راستے پر گامزن ہیں۔
نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے تازہ بیان نے اس معاہدے کی گہرائی، حساسیت اور اس کے ممکنہ مستقبل کے پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ:
"سعودی عرب سے معاہدہ ایک رات میں طے نہیں پایا، اس میں کئی ماہ کی سنجیدہ گفت و شنید شامل تھی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی تعلقات بلاضابطہ طور پر ہمیشہ سے موجود تھے، اب انہیں باقاعدہ شکل دی گئی ہے۔”
معاہدہ: برسوں پر محیط تعلقات کی رسمی توثیق
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی بنیاد بھائی چارے، مذہبی ہم آہنگی اور سیکیورٹی اشتراک پر قائم ہے۔ اگرچہ ماضی میں متعدد مواقع پر دونوں ممالک نے سیکیورٹی اور عسکری سطح پر تعاون کیا، لیکن اب باقاعدہ دفاعی معاہدے کی شکل میں اس تعلق کو دستاویزی بنیاد مل گئی ہے۔
یہ معاہدہ نہ صرف دوطرفہ دفاعی تعاون کی نئی راہیں کھولے گا بلکہ خطے میں ایک نئے اسٹریٹیجک اتحاد کا بھی پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔
اسحاق ڈار کا بیان: سفارتی حکمت عملی کی جھلک
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ:
"یہ معاہدہ راتوں رات طے نہیں پایا، بلکہ اس کے پیچھے کئی ماہ کی محنت اور مشاورت ہے۔”
یہ جملہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستان نے اس معاہدے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا اور بین الاقوامی سفارت کاری کے تمام تقاضے پورے کیے۔ ڈار کے مطابق:
"یہ محض ایک رسمی معاہدہ نہیں بلکہ اس کا ہر لفظ سوچ سمجھ کر طے کیا گیا ہے، تاکہ دونوں ممالک کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔”
دیگر ممالک کی دلچسپی: ایک نیا اتحاد؟
اسحاق ڈار نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا:
"دیگر ممالک بھی اس دفاعی معاہدے کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔”
یہ بیان خطے میں ممکنہ طور پر ایک نئے اسلامی دفاعی بلاک کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اگر یہ پیش رفت اسی سمت میں بڑھتی رہی تو پاکستان، سعودی عرب اور دیگر مسلم ممالک ایک ایسی فوجی و سفارتی لڑی میں بندھ سکتے ہیں جو:
اسلامی دنیا کو مضبوط تر بنائے،
دفاعی خودمختاری کو یقینی بنائے،
اور بیرونی خطرات سے مشترکہ طور پر نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
ڈار نے اگرچہ مزید تفصیلات کو "قبل از وقت” قرار دیا، مگر ان کا اشارہ واضح تھا کہ پاکستان ایک علاقائی اور عالمی پلیئر کے طور پر اپنی پوزیشن کو مستحکم کر رہا ہے۔
حرمین شریفین اور مسلمانوں کا جذباتی رشتہ
نائب وزیر اعظم نے گفتگو کے دوران ایک انتہائی اہم نکتہ بھی اٹھایا، جب انہوں نے کہا:
"ہر مسلمان ویسے بھی حرمین شریفین پر قربان ہونے کے لیے تیار ہوتا ہے۔”
یہ جملہ محض ایک بیان نہیں، بلکہ ایک عقیدت، جذبات اور جذبے کا اظہار ہے جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے لیے موجود ہے۔
پاکستان کی مسلح افواج کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حرمین شریفین کو خطرہ لاحق ہوا، پاکستان نے ہمیشہ اپنی جان و مال کی قربانی پیش کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب جیسے مقدس ملک کے ساتھ دفاعی اشتراک کو عوامی سطح پر وسیع تر حمایت حاصل ہے۔
معاہدے کے ممکنہ نکات
اگرچہ معاہدے کی مکمل تفصیلات فی الحال ظاہر نہیں کی گئیں، لیکن ذرائع کے مطابق اس میں شامل ممکنہ نکات درج ذیل ہو سکتے ہیں:
انسداد دہشت گردی کے لیے مشترکہ تربیت اور مشقیں
دفاعی انٹیلیجنس کا تبادلہ
ہتھیاروں، ٹیکنالوجی اور دفاعی آلات کی فراہمی
فوجی تربیت کے پروگرامز میں تعاون
بحری و فضائی سیکیورٹی میں اشتراک
اگر یہ نکات معاہدے کا حصہ ہیں تو یہ پاک سعودی دفاعی شراکت داری کو ایک ہمہ گیر اسٹریٹیجک پارٹنرشپ میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
علاقائی اثرات: بھارت، ایران اور مغربی دنیا کی نظر
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی اشتراک کی گونج صرف اسلامی دنیا تک محدود نہیں، بلکہ:
بھارت اس معاہدے کو اپنے لیے ممکنہ چیلنج سمجھ رہا ہے، کیونکہ سعودی عرب نے حالیہ برسوں میں نئی دہلی کے ساتھ بھی تعلقات بڑھانے کی کوشش کی ہے۔
ایران، جو پہلے ہی سعودی عرب سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہا ہے، اس معاہدے کو محتاط نظر سے دیکھے گا۔
امریکہ و یورپ، جو مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن برقرار رکھنا چاہتے ہیں، اس معاہدے پر گہری نظر رکھیں گے۔
لہٰذا، یہ معاہدہ محض دو ملکوں کی بات نہیں بلکہ خطے کے طاقت کے نقشے میں تبدیلی کا پیش خیمہ بھی بن سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے موقع: قائدانہ کردار کی بحالی
پاکستان ایک طویل عرصے سے عالمی سطح پر غیر یقینی معاشی حالات اور داخلی سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے، لیکن یہ معاہدہ پاکستان کو:
ایک ذمہ دار اور متحرک ریاست کے طور پر پیش کر رہا ہے،
سفارتی میدان میں ایک نئی توانائی دے رہا ہے،
اور دفاعی سطح پر قابل اعتماد شراکت دار کی حیثیت مضبوط کر رہا ہے۔
نتیجہ: احتیاط اور بصیرت کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت
اگرچہ اس معاہدے کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن عالمی سیاسی منظرنامہ کسی بھی وقت نئی سمت اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ:
معاہدے کی باہمی خودمختاری کو یقینی بنائے،
دیگر ممالک کو شامل کرتے وقت سفارتی توازن برقرار رکھے،
اور اس پارٹنرشپ کو محض عسکری اشتراک سے بڑھا کر ثقافتی، اقتصادی اور تعلیمی میدان تک بھی وسعت دے۔
اختتامی کلمات:
اسحاق ڈار کا بیان اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان سفارتی افق پر اپنی واپسی کی راہ پر ہے۔ سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ ایک سنگ میل ہے، لیکن اس راہ میں مزید قدم اٹھانا ہوں گے۔
اسلامی دنیا کو آج جس یکجہتی، اتحاد اور عملی اشتراک کی ضرورت ہے، پاکستان کا یہ کردار اُس ضرورت کا جواب ہو سکتا ہے — بشرطیکہ یہ اقدام محض وقتی فائدے سے بڑھ کر ایک نظریاتی، عملی اور دیرپا سفارتی حکمت عملی میں تبدیل ہو۔

Comments 1