اسرائیل کا قطر پر فضائی حملہ — خلیل الحیہ محفوظ، بیٹے سمیت 6 افراد شہید
دوحہ : قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اسرائیلی فضائی حملے نے پورے مشرقِ وسطیٰ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے کا ہدف حماس کی سینئر قیادت تھی، خاص طور پر خلیل الحیہ اور ان کے قریبی رفقاء، تاہم خلیل الحیہ خود تو محفوظ رہے لیکن ان کے صاحبزادے اور معاونین سمیت کم از کم 6 افراد جاں بحق ہوگئے۔ یہ واقعہ نہ صرف قطر اور اسرائیل کے درمیان بلکہ خطے میں موجود تمام ممالک اور عالمی طاقتوں کے لیے ایک بڑے سفارتی بحران کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، یہ حملہ اس وقت ہوا جب حماس کے رہنما قطر میں موجود اپنی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ امریکا کی تازہ ترین جنگ بندی تجویز پر غور کرنے کے لیے جمع تھے۔ عینی شاہدین نے دوحہ کے کتارا ڈسٹرکٹ میں دھماکوں کی آوازیں سننے اور عمارتوں سے دھواں اٹھتے دیکھنے کی تصدیق کی۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق حملے میں جدید ترین ڈرون اور میزائل ٹیکنالوجی استعمال کی گئی، جو براہِ راست اسرائیل کے فوجی اڈوں سے کنٹرول کیے جا رہے تھے۔
اسرائیلی چینل 12 نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منظوری سے کیا گیا۔ اگرچہ وائٹ ہاؤس نے اس پر براہِ راست تبصرہ کرنے سے گریز کیا، لیکن امریکی میڈیا نے اس امکان کو نظرانداز بھی نہیں کیا۔
جانی نقصان
حماس کے سیاسی بیورو کے رکن سہیل الہندی کے مطابق، اس حملے میں خلیل الحیہ(khalil al-hayya) کے صاحبزادے ہمام الحیہ، دفتر کے ڈائریکٹر جہاد لبد، قریبی ساتھی عبداللہ عبد الواحد (ابو خلیل)، معمن حسونہ (ابو عمر) اور احمد المملوک (ابو مالک) شہید ہوگئے۔ اس کے علاوہ قطر کی اندرونی سیکیورٹی فورس کے اہلکار کارپورل بدر سعد محمد الحمایدی بھی جاں بحق ہوئے۔
الہندی کے مطابق، حملے کے بعد تین باڈی گارڈز سے بھی رابطہ منقطع ہوگیا ہے، جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
حماس کا ردعمل
حماس نے اس حملے کو صرف اپنی قیادت پر حملہ نہیں بلکہ پوری فلسطینی مزاحمتی تحریک اور عرب دنیا پر براہِ راست جارحیت قرار دیا۔ سہیل الہندی نے الجزیرہ سے گفتگو میں کہا:
"یہ حملہ صرف حماس یا قطر پر نہیں بلکہ پوری آزاد دنیا پر حملہ ہے۔ اگر مذاکرات کرنے والے رہنماؤں کو نشانہ بنایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل امن کا خواہاں نہیں بلکہ خونریزی کو بڑھانا چاہتا ہے۔”
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کے اس اقدام پر محض مذمت تک محدود نہ رہے بلکہ عملی اقدامات کرے تاکہ فلسطینی عوام پر مسلسل ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ ہو۔
قطر کا موقف
قطر کی وزارتِ خارجہ نے واقعے کو "مجرمانہ اور کھلی اشتعال انگیزی” قرار دیا ہے۔ ترجمان ڈاکٹر ماجد الانصاری نے کہا کہ اسرائیلی کارروائی قطر کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی اور قطر میں مقیم غیر ملکی شہریوں کے تحفظ کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ایک رہائشی عمارت پر کیا گیا، جہاں حماس کے متعدد سیاسی رہنما قیام پذیر تھے، اور اس طرح کے حملے بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی مکمل پامالی ہیں۔
امریکا کی خاموشی
امریکی انتظامیہ اس معاملے پر کھل کر سامنے آنے سے گریزاں نظر آئی۔ وائٹ ہاؤس کی ڈپٹی پریس سیکریٹری اینا کیلی نے الجزیرہ کو بتایا کہ "فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جا رہا، ہم صورتحال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں۔” تاہم انہوں نے یہ امکان ظاہر کیا کہ صدر ٹرمپ اس حوالے سے سب سے پہلے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل” پر بات کر سکتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کی خاموشی بذاتِ خود بہت کچھ ظاہر کرتی ہے، کیونکہ قطر میں امریکا کا ایک بڑا فوجی اڈہ بھی موجود ہے اور اگر یہ حملہ امریکی منظوری کے بغیر ہوا ہے تو یہ واشنگٹن اور تل ابیب کے تعلقات میں نئے تناؤ کا باعث بن سکتا ہے۔
ایران اور دیگر ممالک کا ردعمل
ایران نے اسرائیلی حملے کو "جرم اور کھلی جارحیت” قرار دیا۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اسمٰعیل بقائی نے کہا کہ یہ کارروائی نہ صرف قطر کی خودمختاری بلکہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی بھی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عالمی برادری خاموش رہی تو اسرائیل کے یہ اقدامات پورے خطے کو آگ میں جھونک دیں گے۔
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے بھی سخت ردعمل دیا اور قطر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔ یو اے ای کے صدر کے سفارتی مشیر نے کہا کہ یہ ایک "غدارانہ اور خطرناک” اقدام ہے جس کی ہر سطح پر مذمت کی جانی چاہیے۔
اسی طرح ترکی اور اردن نے بھی اس حملے کو خطے میں امن و استحکام کے لیے تباہ کن قرار دیا۔
دوحہ پر اسرائیلی حملہ: حماس کی قیادت، قطر کی پوزیشن، امریکا کی ناراضگی اور عالمی ردعمل
اسرائیل کی وسعت پاتی مہم
قطر پر حملہ خطے میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے فوجی آپریشنز کا تسلسل ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں اسرائیل نے نہ صرف غزہ پر شدید بمباری کی بلکہ لبنان، شام اور یمن میں بھی بارہا فضائی حملے کیے۔
8 ستمبر کو اسرائیلی ڈرون نے تیونس کے قریب لنگر انداز ایک امدادی جہاز کو بھی نشانہ بنایا، جس پر غزہ کے لیے طبی اور خوراکی سامان موجود تھا۔ ان تمام واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنی فوجی مہم کو مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک تک پھیلا رہا ہے۔

تجزیہ: خطے پر اثرات
تجزیہ کاروں کے مطابق قطر پر یہ حملہ کئی اہم سوالات کو جنم دیتا ہے:
کیا اسرائیل اب عرب ممالک کے دارالحکومتوں کو بھی کھلے عام نشانہ بنائے گا؟
کیا امریکا اس طرح کے اقدامات کی درپردہ منظوری دے رہا ہے؟
اور سب سے اہم سوال یہ کہ کیا فلسطین کی مزاحمتی تحریک اب مذاکرات کے بجائے مکمل عسکری مزاحمت کی طرف بڑھ جائے گی؟
یہ حملہ اس وقت ہوا جب غزہ میں جنگ بندی کے امکانات زیرِ غور تھے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اسرائیل نے شعوری طور پر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے۔
دوحہ میں ہونے والا یہ فضائی حملہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں بلکہ ایک نیا بحران ہے جس نے پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ خلیل الحیہ کا بیٹے سمیت قریبی رفقاء کی قربانی دینا یہ واضح کرتا ہے کہ اسرائیل اپنی پالیسی میں کسی سیاسی حد یا اخلاقی ضابطے کا پابند نہیں رہا۔
قطر اور دیگر عرب ممالک کی جانب سے ردعمل آنے کے بعد یہ معاملہ اب صرف فلسطین تک محدود نہیں رہا بلکہ ایک بڑے بین الاقوامی تنازع کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں یہ واقعہ مشرقِ وسطیٰ کی سیاست، عالمی طاقتوں کے تعلقات اور فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی پر گہرے اثرات ڈالے گا۔
Suhail Al Hindi, a member of Hamas’s Political Bureau, confirms to Al Jazeera that no members of the leadership were killed during today's Israeli attack in Doha. pic.twitter.com/fjD2U4pssN
— 5Pillars (@5Pillarsuk) September 9, 2025










Comments 1