مشرق وسطیٰ کی حالیہ صورتحال ایک نئے سنگین موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ 9 ستمبر کو اسرائیل کا دوحہ پر حملہ نہ صرف قطر کے لیے ایک بڑا صدمہ تھا بلکہ اس نے عالمی سطح پر سفارتکاری اور امن کی کوششوں کو بھی شدید متاثر کیا۔ اس واقعے کے بعد قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی نے سلامتی کونسل میں بھرپور اور سخت مؤقف اختیار کیا۔
سلامتی کونسل میں قطری وزیراعظم کا خطاب
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے قطری وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل کا دوحہ پر حملہ دراصل سفارتکاری کی توہین ہے۔ ان کے مطابق یہ اقدام قطر کی ثالثی اور امن قائم کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ حملہ نہ صرف انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنا بلکہ اس نے حماس اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ جنگ بندی کے امکانات کو بھی ختم کر دیا۔
انسانی جانوں کا نقصان
اسرائیلی فضائی حملے میں خلیل الحیہ کے بیٹے سمیت چھ افراد جاں بحق ہوئے۔ اگرچہ حماس کی مرکزی قیادت محفوظ رہی، لیکن یہ واقعہ قطر کے دارالحکومت میں ہونے کے باعث عالمی برادری کے لیے تشویش کا باعث بن گیا۔
قطری وزیراعظم نے واضح کیا کہ عام شہریوں کو نشانہ بنانا عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اقوام متحدہ کو اس پر سخت نوٹس لینا چاہیے۔
امریکا میں بیان
سلامتی کونسل سے قبل امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے قطری وزیراعظم نے کہا کہ اس حملے کے بعد یرغمالیوں کی رہائی کی تمام امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ ان کے مطابق اسرائیل نے امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی سوچی سمجھی کوشش کی ہے، جس کا اثر خطے میں جاری تنازع پر براہ راست پڑے گا۔
سفارتکاری کی کوششوں پر اثرات
قطر ہمیشہ سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس کے ذریعے کئی مرتبہ جنگ بندی ممکن ہوئی اور انسانی بنیادوں پر امداد بھی فراہم کی گئی۔ لیکن اسرائیل کا دوحہ پر حملہ اس کردار کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
قطری وزیراعظم نے اعلان کیا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود قطر اپنی ثالثی اور انسانی بنیادوں پر خدمات کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
عالمی ردعمل
سلامتی کونسل میں خطاب کے بعد کئی ممالک نے قطر سے اظہار یکجہتی کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کو اپنی کارروائیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ عالمی برادری میں یہ بحث بھی زور پکڑ گئی ہے کہ اگر ایسے حملے تسلسل سے ہوتے رہے تو خطے میں امن کا قیام مزید مشکل ہو جائے گا۔
پاکستان کا ردعمل
پاکستان نے بھی واضح طور پر اس حملے کی مذمت کی اور اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ یہ وقت عالمی برادری کے اتحاد کا متقاضی ہے تاکہ فلسطین اور قطر جیسے ممالک کی سفارتی کوششوں کو تحفظ دیا جا سکے۔

ماہرین کی رائے
بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا دوحہ پر حملہ نہ صرف قطر کے لیے بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک پیغام ہے۔ یہ اقدام دراصل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اسرائیل کسی بھی ثالثی یا سفارتکاری کو خاطر میں نہیں لا رہا۔
کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر عالمی طاقتیں فوری مداخلت نہ کریں تو خطے میں ایک بڑی جنگ کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اسرائیل کا دوحہ پر حملہ صرف ایک فضائی کارروائی نہیں بلکہ سفارتکاری، امن اور انسانی حقوق پر براہِ راست حملہ تھا۔ قطر نے اپنے مؤقف میں واضح کیا ہے کہ وہ ان دھمکیوں سے پیچھے نہیں ہٹے گا اور امن کی کوششیں جاری رکھے گا۔
اب یہ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سنگین صورتحال کا سنجیدہ نوٹس لے اور خطے میں امن قائم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔
پاکستان کا کرارا جواب سلامتی کونسل میں اسرائیلی نمائندے کو بے نقاب کرتا ہے
Comments 2