اسرائیل قطر حملہ: نیتن یاہو کا حماس قیادت پر الزام اور غزہ جنگ کی رکاوٹیں
نیتن یاہو کا قطر میں مقیم حماس قیادت پر الزام: غزہ جنگ اور یرغمالیوں کی رہائی کی راہ میں رکاوٹ یا حقیقت؟
مشرق وسطیٰ ایک بار پھر شدید کشیدگی کی لپیٹ میں ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے حالیہ دنوں ایک سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قطر میں مقیم حماس قیادت کا خاتمہ غزہ کی جنگ کو ختم کرنے اور یرغمالیوں کی رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ کو دور کر دے گا۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب اسرائیل نے 9 ستمبر 2025 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک اہم فضائی حملہ کیا، جس میں حماس سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد شہید ہوئے۔
نیتن یاہو کا دعویٰ ہے کہ قطر میں بیٹھ کر حماس کی قیادت جنگ بندی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال رہی ہے اور کسی بھی ممکنہ معاہدے کو سبوتاژ کر رہی ہے۔ انہوں نے حماس قیادت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جب تک قطر میں موجود رہنما محفوظ رہیں گے، تب تک غزہ میں امن اور قیدیوں کی رہائی ممکن نہیں۔
قطر میں حماس کی موجودگی: پس منظر اور حقیقت
حماس کی قیادت کا قطر میں قیام کوئی نئی بات نہیں۔ سنہ 2012 میں جب شام میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو حماس کی اعلیٰ قیادت نے دمشق چھوڑ کر دوحہ میں پناہ لی۔ قطر، جسے دنیا میں ایک ثالثی قوت اور متوازن کردار کے حامل ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے، نے حماس کو قیام کی اجازت دی تاکہ وہ سیاسی اور سفارتی طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکے۔
قطر کا مؤقف ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ فلسطینی کاز کی حمایت کرتا ہے لیکن امن کے ذریعے۔ قطر نے غزہ میں انسانی امداد فراہم کرنے، اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی تعمیر نو میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ اس تناظر میں قطر میں موجود حماس کی قیادت، بالخصوص اسماعیل ہنیہ اور دیگر سینئر رہنماؤں کا قیام، ایک سیاسی حقیقت ہے جسے کئی برسوں سے عالمی سطح پر قبول کیا گیا ہے۔
9 ستمبر کا فضائی حملہ: دوحہ میں کشیدگی
اسرائیل کی جانب سے 9 ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک فضائی حملہ کیا گیا، جس نے عالمی سطح پر سنجیدہ سوالات کو جنم دیا۔ حماس کے مطابق اس حملے میں چھ افراد شہید ہوئے جن میں ایک سینئر رہنما خلیل الحیا کا بیٹا اور معاون بھی شامل تھا۔ حماس نے وضاحت کی کہ ان کی اعلیٰ قیادت اس حملے میں محفوظ رہی، لیکن یہ واضح ہے کہ حملے کا ہدف حماس کی مرکزی قیادت ہی تھی۔
یہ پہلا موقع ہے جب اسرائیل نے براہ راست قطر کی سرزمین پر کارروائی کی، جو کہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک خودمختار ریاست کی خودمختاری پر بھی حملہ تصور کیا جا رہا ہے۔ قطر نے اس اقدام کی شدید مذمت کی اور عالمی برادری سے اس کی مذمت کا مطالبہ کیا۔
یرغمالیوں کی رہائی اور امن معاہدے کی راہ میں رکاوٹیں
نیتن یاہو کے حالیہ بیانات میں اس نکتے پر زور دیا گیا ہے کہ حماس کی قطر میں موجود قیادت درحقیقت جنگ بندی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ان کے مطابق یہ رہنما سخت گیر مؤقف رکھتے ہیں اور قیدیوں کی رہائی یا جنگ کے خاتمے میں سنجیدہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ:
"جب تک دوحہ میں بیٹھے یہ رہنما محفوظ رہیں گے، تب تک امن کی امید عبث ہے۔ ان کا خاتمہ ہی پیش رفت کی واحد راہ ہے۔”
لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا یہ بیانیہ صرف ایک حربہ ہے تاکہ وہ داخلی سطح پر دباؤ سے بچ سکیں۔ اسرائیل میں موجودہ حکومت کو اندرونی طور پر شدید تنقید کا سامنا ہے، بالخصوص یرغمالیوں کے اہل خانہ اور امن پسند حلقوں کی جانب سے۔ نیتن یاہو کے ناقدین کا دعویٰ ہے کہ وہ جنگ کو طول دے کر سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
حماس کا ردعمل اور مزاحمتی مؤقف
حماس نے نیتن یاہو کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اسرائیلی قیادت کی ایک اور "پراپیگنڈہ” مہم ہے، جس کا مقصد اصل مسائل سے توجہ ہٹانا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ ان کی قیادت عوامی حمایت کے تحت کام کر رہی ہے اور قطر میں ان کی موجودگی کوئی خفیہ معاملہ نہیں۔
خلیل الحیا، جن کے بیٹے کو فضائی حملے میں شہید کیا گیا، نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا:
"شہادت ہمارے راستے کا حصہ ہے۔ یہ حملے ہماری راہ کو روک نہیں سکتے۔ نیتن یاہو جان لیں، قیادت صرف افراد کا نام نہیں، یہ ایک نظریہ ہے، ایک عزم ہے۔”
علاقائی اور عالمی ردعمل
قطر نے فضائی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے بین الاقوامی قوانین اور انسانی اقدار کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اقوام متحدہ، ترکی، ایران، اور متعدد عرب ممالک نے بھی اسرائیل کے اس اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا۔
امریکہ نے، جو اسرائیل کا اتحادی تصور کیا جاتا ہے، اسرائیل سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور مذاکرات کے دروازے کھلے رکھنے کی اپیل کی ہے۔ تاہم، امریکہ نے قطر میں حملے کی براہ راست مذمت کرنے سے گریز کیا، جو ایک سفارتی توازن کی کوشش نظر آتی ہے۔
غزہ جنگ: جاری المیہ
غزہ پر اسرائیلی بمباری کا سلسلہ جاری ہے، جس میں اب تک ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ طبی سہولیات تباہ، تعلیمی ادارے بند اور روزمرہ زندگی مفلوج ہو چکی ہے۔ عالمی ادارے اس انسانی المیے پر شدید تشویش کا اظہار کر چکے ہیں، لیکن عملی اقدامات کی کمی بدستور جاری ہے۔
ان حالات میں قطر میں حماس قیادت پر حملہ دراصل اس جنگ کو مزید پیچیدہ کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان غزہ کے عام شہریوں کو ہی اٹھانا پڑ رہا ہے۔
نتیجہ: امن کی راہ کدھر ہے؟
نیتن یاہو کا بیان اور قطر میں کیا گیا فضائی حملہ درحقیقت اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ موجودہ قیادتیں جنگ کے خاتمے کی بجائے اسے سیاسی اور عسکری ایجنڈے کے تحت طول دے رہی ہیں۔ اگر واقعی مقصد یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں امن ہے، تو اس کے لیے مذاکرات، ثالثی، اور سفارتی ذرائع ہی واحد راستہ ہیں۔
قطر جیسے ممالک کی کردار کشی یا ان کی سرزمین پر عسکری کارروائیاں دراصل علاقائی استحکام کو مزید کمزور کریں گی۔ حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ ایک دیرپا امن معاہدے کی بنیاد رکھی جائے، جس میں تمام فریقین کی عزت، سلامتی اور خودمختاری کو مدنظر رکھا جائے۔
غزہ کا مستقبل اس بات سے جڑا ہے کہ قیادتیں اپنی سیاسی انا سے اوپر اٹھ کر انسانی بنیادوں پر فیصلے کریں۔ صرف اسی صورت میں ایک پائیدار اور حقیقی امن ممکن ہے۔











