انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکا، خوف و ہراس پھیل گیا
جکارتہ کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکا — 54 افراد زخمی، شہر میں خوف و ہراس
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں اس وقت افراتفری مچ گئی جب ایک اسکول کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکا ہوا۔ دھماکے کے نتیجے میں 54 افراد زخمی ہو گئے، جن میں طلبہ، اساتذہ، اور نمازی شامل ہیں۔
دھماکے کا واقعہ
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق، یہ واقعہ جمعہ کی دوپہر پیش آیا جب جکارتہ کے ایک معروف اسکول کی مسجد میں نماز جمعہ جاری تھی۔ اچانک زوردار دھماکے نے فضا کو لرزا دیا، جس کے بعد ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔
پولیس کے مطابق دھماکے کے فوراً بعد امدادی ٹیمیں جائے وقوعہ پر پہنچ گئیں اور زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
عینی شاہدین کے بیانات
ایک عینی شاہد، جو اس وقت مسجد میں موجود تھے، نے بتایا:
“ہم نماز کے دوران تھے کہ اچانک ایک دھماکا ہوا۔ سب کچھ دھوئیں سے بھر گیا، لوگ گھبراہٹ میں بھاگنے لگے۔”
ایک اور نمازی نے کہا کہ دھماکا مسجد کے پچھلے حصے میں ہوا، جہاں وضو کے قریب ایک سامان رکھا گیا تھا۔
دھماکے کی نوعیت اور تحقیقات
پولیس کے مطابق، جکارتہ کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکا ممکنہ طور پر کسی گیس سلنڈر یا برقی خرابی کے باعث ہوا، تاہم دہشت گردی کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا رہا۔
پولیس سربراہ "انڈیرا سیتوان” نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
“ہم دھماکے کی تمام پہلوؤں سے تحقیقات کر رہے ہیں۔ فی الحال کسی گروپ کی ذمہ داری سامنے نہیں آئی، لیکن تفتیشی ٹیمیں جائے وقوعہ پر شواہد اکٹھے کر رہی ہیں۔”
زخمیوں کی حالت
اسپتال کے ترجمان کے مطابق 54 زخمیوں میں سے کچھ کی حالت تشویش ناک ہے۔ بیشتر زخمیوں کو جلنے، دھوئیں کے باعث دم گھٹنے، اور زخموں کی شکایات ہیں۔
ڈاکٹر "انیسا یولندا” نے میڈیا کو بتایا:
“ہم نے ہنگامی حالت نافذ کر دی ہے۔ زخمیوں کے لیے اضافی طبی عملہ تعینات کر دیا گیا ہے۔”
حکومت کا ردِعمل
انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زخمیوں کی فوری مدد کی ہدایت کی۔
صدر نے کہا:
“یہ ایک المناک واقعہ ہے۔ ہم ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔ شہریوں سے اپیل ہے کہ افواہوں سے گریز کریں اور پولیس کے ساتھ تعاون کریں۔”
دھماکے کی جگہ پر سکیورٹی
دھماکے کے بعد پولیس، بم ڈسپوزل اسکواڈ، اور ریسکیو ٹیموں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ مسجد کے اطراف سڑکیں بند کر دی گئیں تاکہ کسی ثانوی دھماکے کا خطرہ نہ ہو۔
پولیس ترجمان کے مطابق جائے وقوعہ سے کچھ دھات کے ٹکڑے اور مشتبہ مواد برآمد ہوا ہے جسے تجزیے کے لیے لیبارٹری بھیجا گیا ہے۔
جکارتہ کے شہریوں میں خوف
جکارتہ کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکا ہونے کے بعد شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ قریبی اسکولوں کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا اور والدین کو ہدایت دی گئی کہ وہ اپنے بچوں کو محفوظ مقامات پر لے جائیں۔
سوشل میڈیا پر لوگوں نے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور زخمیوں کی صحت کے لیے دعائیں کیں۔
مذہبی رہنماؤں کا بیان
انڈونیشیا کے علما کونسل نے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔ ایک بیان میں کہا گیا:
“نماز جمعہ جیسے مقدس موقع پر دھماکا قابلِ مذمت ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے، خواہ اس کے پیچھے کوئی بھی مقصد ہو۔”
انہوں نے مزید کہا کہ عوام صبر کا مظاہرہ کریں اور اتحاد برقرار رکھیں۔
پچھلے واقعات کا پس منظر
انڈونیشیا، جو دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے، ماضی میں بھی مختلف مذہبی مقامات پر دھماکوں کا نشانہ بن چکا ہے۔
2002 میں بالی میں ہونے والے بم دھماکوں میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد سے حکومت نے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کو سخت کیا۔
عالمی ردِعمل
واقعے کے بعد کئی ممالک نے انڈونیشیا سے اظہارِ ہمدردی کیا ہے۔ پاکستان، ترکی، سعودی عرب اور ملائیشیا نے متاثرین کے لیے نیک تمنائیں بھیجیں۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا:
“ہم انڈونیشیا کے عوام کے ساتھ ہیں۔ مسجد میں نماز کے دوران دھماکا انتہائی افسوسناک ہے۔”
پشاور کوہاٹ روڈ دھماکا : سڑک کنارے نصب بارودی مواد میں دھماکا، 4 پولیس اہلکار زخمی
جکارتہ کی مسجد میں نماز جمعہ کے دوران دھماکا ایک المناک واقعہ ہے جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ حکومت نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور شہریوں سے صبر و تحمل کی اپیل کی گئی ہے۔
دعا ہے کہ زخمی جلد صحت یاب ہوں اور انڈونیشیا میں امن و امان بحال رہے۔









