خبردار! جعلی ادویات کا استعمال جان لیوا خطرہ بن گیا
پاکستان میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کے دوران ایسی خطرناک دوائیاں پکڑی گئی ہیں جو مریضوں کی زندگیوں کے لیے شدید خطرہ ہیں۔ صوبائی ڈرگ کنٹرول ڈائریکٹوریٹ نے مختلف شہروں سے بڑی مقدار میں جعلی ادویات کا استعمال روکنے کے لیے کارروائی کی اور متعدد بیچز کو ضبط کر لیا۔ اس کے بعد ڈریپ نے عوام کو فوری وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تمام دوائیں جعلی ہیں اور ان کا استعمال براہِ راست انسانی جان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
جعلی ادویات کا استعمال کیوں خطرناک ہے؟
ماہرین کے مطابق جعلی ادویات کا استعمال اس لیے خطرناک ہے کہ ان میں موجود اجزاء نہ صرف غیر معیاری ہوتے ہیں بلکہ اکثر ان میں مطلوبہ فعال اجزاء (Active Ingredients) شامل ہی نہیں ہوتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مریض کو علاج کے بجائے مزید پیچیدگیاں لاحق ہوسکتی ہیں۔ بخار، انفیکشن یا انزائٹی جیسے امراض کے علاج میں جعلی دوائیں بیماری کو ختم کرنے کے بجائے اور زیادہ بگاڑ دیتی ہیں۔ کئی کیسز میں یہ دوائیں جگر اور گردوں کو نقصان پہنچاتی ہیں، جبکہ کمزور مریضوں کے لیے یہ موت کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔
جعلی ادویات کا استعمال پکڑا کیسے گیا؟
ڈرگ کنٹرول ڈائریکٹوریٹ نے کراچی، لاہور، قصور اور دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر چھاپے مارے۔ ان کارروائیوں میں بخار، جسم درد، بیکٹیریل انفیکشن، معدے اور انزائٹی کے علاج میں استعمال ہونے والی 10 سے زائد دواؤں کو جعلی قرار دیا گیا۔
ایزومیکس 500 ایم جی ٹیبلٹ (بیچ C1699) جعلی نکلا۔
کلیریسڈ 500 ایم جی ٹیبلٹ (بیچ 722269XV) جعلی قرار دیا گیا۔
جسم سے اضافی پانی خارج کرنے والی ڈائیٹرون ٹیبلٹ (بیچ DIT) جعلی ہے۔
بیکٹیریل انفیکشن کی لیونٹوس 375 اور 625 ایم جی کی گولیاں جعلی ثابت ہوئیں۔
سلفیرا سسپنشن (بیچ SL6) جعلی ہے۔
الرجی کے لیے فیورن نیزل اسپرے (بیچ NF4) جعلی قرار دیا گیا۔
ڈروکسیل کیپسول 500 ایم جی (بیچ RC5) جعلی ہے۔
انزائٹی کے علاج کی برومز ٹیبلٹ (بیچ 0007) بھی جعلی نکلی۔
یہ سب دوائیں مارکیٹ میں عام برانڈز کے نام پر فروخت کی جا رہی تھیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جعلی ادویات کا استعمال ہر سطح پر پھیل رہا ہے۔
جعلی ادویات کا استعمال عوام کے لیے کتنا بڑا خطرہ؟
صحت کے ماہرین نے واضح کیا ہے کہ جعلی ادویات کا استعمال انسانی جسم پر دیرپا اور خطرناک اثرات ڈالتا ہے۔ مثال کے طور پر:
اینٹی بائیوٹکس کی جعلی شکل بیماری کے جراثیم کو ختم کرنے کے بجائے مزید مضبوط کرتی ہے۔
الرجی اور انزائٹی کی جعلی دوائیں مریض کے اعصابی نظام پر برا اثر ڈال سکتی ہیں۔
جسم سے پانی خارج کرنے والی جعلی ادویات گردوں کے فیل ہونے کا باعث بن سکتی ہیں۔
معدے اور جگر کے مریضوں کے لیے جعلی ادویات موت کا پیغام بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔
ڈریپ کا کہنا ہے کہ جعلی ادویات کا استعمال کرنے والے مریض اکثر اسپتال تک پہنچنے سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار سکتے ہیں۔
جعلی ادویات کا استعمال روکنے کے لیے اقدامات
حکومت نے واضح ہدایت دی ہے کہ تمام صوبائی ڈرگ کنٹرول ادارے فوری طور پر کریک ڈاؤن تیز کریں۔ عوام کو بھی یہ کہا گیا ہے کہ وہ دوائیں ہمیشہ مستند اور رجسٹرڈ فارمیسی سے خریدیں۔ خریداری کے وقت ہر دوا کا بیچ نمبر اور ہولوگرام چیک کرنا ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ دوا اصلی ہے یا جعلی۔
مزید برآں، حکام نے شہریوں کو تاکید کی ہے کہ اگر انہیں مارکیٹ میں ایسی مشکوک دوائیں ملیں تو فوری طور پر متعلقہ ادارے کو اطلاع دیں تاکہ مزید لوگوں کو نقصان سے بچایا جا سکے۔
جعلی ادویات کا استعمال اور قانونی پہلو
ڈرگ ایکٹ 1976 کے سیکشن 3 کے مطابق جعلی دواؤں کی تیاری اور فروخت ایک سنگین جرم ہے۔ اس جرم میں ملوث افراد کو نہ صرف بھاری جرمانے بلکہ قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ جعلی ادویات کا استعمال اور ان کی ترسیل کرنے والوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے گی۔
ادویات کی ڈی ریگولیشن سے پیناڈول، انسولین سمیت دواؤں کی قلت ختم
پاکستان میں جعلی ادویات کا استعمال ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جو عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ بخار، جسم درد، بیکٹیریل انفیکشن اور انزائٹی کے علاج کے نام پر بیچی جانے والی یہ جعلی دوائیں مریضوں کے لیے موت کا پروانہ ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام ہوشیار رہیں، صرف مستند فارمیسی سے دوائیں خریدیں اور ہر ممکن کوشش کریں کہ جعلی ادویات کا استعمال روکنے میں حکام کے ساتھ تعاون کریں۔