یروشلم مظاہرے شدت اختیار کرگئے، نیتن یاہو کے گھر کے باہر تشدد
اسرائیل کے خود ساختہ دارالحکومت یروشلم میں جاری یروشلم مظاہرے اب ایک بڑے بحران میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کی انتہاپسند پالیسیوں، یرغمالیوں کی رہائی میں ناکامی اور غزہ میں انسانی المیے کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ احتجاج اب صرف پرامن نعرے بازی تک محدود نہیں رہا بلکہ تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے قریب تشدد
عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق مظاہرین کی ایک بڑی تعداد نے نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے قریب جمع ہوکر شدید احتجاج کیا۔ اس دوران مظاہرین نے کچرے کے ڈبوں، ٹائروں کو آگ لگائی اور یہاں تک کہ ایک فوجی ٹینک کو بھی نذرِ آتش کردیا۔ آگ اتنی شدید تھی کہ ساتھ کھڑی اسرائیلی فوجی اہلکار کی گاڑی بھی جل کر خاکستر ہوگئی۔ اس منظر نے دنیا کو حیران کردیا اور یہ ثابت کیا کہ یروشلم مظاہرے کس قدر شدت اختیار کرچکے ہیں۔

فوجی اہلکار اور عوامی غصہ
متاثرہ گاڑی کے مالک فوجی اہلکار کا کہنا تھا کہ وہ غزہ میں جنگ کے دوران اپنی خدمات انجام دیتا رہا ہے اور یرغمالیوں کے خاندانوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے، لیکن اب عوامی غصہ فوج کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ صورتحال اس بات کی علامت ہے کہ عوام اور فوج کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔
رہائشی علاقوں پر اثرات
احتجاج کی شدت کے باعث وزیراعظم ہاؤس کے قرب و جوار میں رہنے والے شہریوں کو اپنے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑا۔ گھروں اور گاڑیوں کو آگ لگنے سے بھاری نقصان ہوا۔ حکام کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ عوامی احتجاج براہِ راست نیتن یاہو کی ذاتی رہائش گاہ کے قریب پہنچ گیا ہے۔
"یومِ خلل” اور عوامی دباؤ
یہ مظاہرے "یومِ خلل” (Day of Disruption) کے موقع پر ہوئے، جس کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا تاکہ غزہ میں قید 48 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدہ کیا جائے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو نے دانستہ طور پر جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے ممکنہ معاہدے کو سبوتاژ کیا تاکہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔
حکومتی ردعمل
اسرائیلی پولیس نے ان مظاہروں کو "جرم اور دہشت گردی” قرار دیا۔ وزیرِانصاف یاریو لیون اور وزیرِقومی سلامتی ایتمار بن گویر نے مظاہرین کو "آتش زن دہشت گرد” کہہ کر طاقت کے استعمال کا حکم دیا۔ یہ اقدام مزید کشیدگی کو جنم دے رہا ہے کیونکہ مظاہرین پر طاقت کے استعمال سے عوامی تحریک مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔
اپوزیشن کا موقف
اپوزیشن رہنماؤں یائیر لپیڈ اور بینی گینتز نے گاڑیوں کو جلانے کی مذمت تو کی لیکن ساتھ ہی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ پُرامن احتجاج ہر شہری کا جمہوری حق ہے لیکن حکومت کی ناکامی نے عوام کو اشتعال پر مجبور کیا ہے۔ اپوزیشن نے زور دیا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
یروشلم مظاہروں کے پس منظر میں غزہ کا بحران
یہ احتجاج اس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل غزہ میں اپنی پالیسیوں کے باعث عالمی سطح پر شدید تنقید کا شکار ہے۔ ہزاروں فلسطینی شہری ہلاک ہوچکے ہیں، جبکہ انسانی بحران نے عالمی برادری کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ لیکن نیتن یاہو کی حکومت جنگ جاری رکھنے پر بضد ہے۔ ماہرین کے مطابق یہی رویہ اندرونی سطح پر بھی عوامی غصے کو بڑھا رہا ہے۔
اسرائیل کا سیاسی و سماجی بحران
اسرائیل اس وقت اندرونی طور پر شدید سیاسی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔ ایک طرف حکومت کی پالیسیوں کے خلاف عوامی بغاوت بڑھ رہی ہے، تو دوسری طرف فوج اور عوام کے درمیان تعلقات بھی بگڑتے جا رہے ہیں۔ یروشلم مظاہرے اس بات کا عملی ثبوت ہیں کہ اسرائیل کے اندرونی حالات اب قابو سے باہر نکل رہے ہیں۔
ابوعبیدہ شہادت: اسرائیلی حملے میں حماس کے ترجمان کی موت
عالمی ردعمل اور دباؤ
عالمی برادری کے کئی رہنماؤں نے اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔ گزشتہ روز سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا کہ اسرائیل کی جاری جنگ اس کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اتحادی ممالک بھی اب کھل کر اس کی حمایت نہیں کر رہے۔ عالمی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اسرائیل نے اپنی پالیسیوں پر نظرِثانی نہ کی تو یہ بحران مزید خطرناک صورت اختیار کرسکتا ہے۔
یقینی طور پر یروشلم مظاہرے اس بات کا اظہار ہیں کہ نیتن یاہو کی حکومت نے نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ اپنے ہی معاشرے کو شدید بحران میں مبتلا کردیا ہے۔ عوامی دباؤ، اپوزیشن کا احتجاج اور عالمی برادری کی مداخلت شاید اس بات پر مجبور کرے کہ اسرائیل اپنی پالیسیوں میں بڑی تبدیلی لائے، ورنہ حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔