جناح ہاؤس حملہ کیس میں شاہ ریز کی ضمانت کا فیصلہ محفوظ
شاہ ریز خان کی ضمانت پر فیصلہ محفوظ: جناح ہاؤس حملہ کیس کی عدالتی کارروائی کا اہم موڑ
لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت (ATC) میں جناح ہاؤس حملہ کیس کی سماعت نے ایک نیا موڑ اختیار کر لیا ہے، جہاں بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بھانجے اور علیمہ خان کے بیٹے، شاہ ریز خان کی ضمانت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے۔
یہ مقدمہ نہ صرف عدالتی طور پر اہمیت کا حامل ہے بلکہ سیاسی و عوامی سطح پر بھی انتہائی حساسیت اختیار کر چکا ہے، کیونکہ یہ کیس پاکستان میں سیاست، انصاف اور سوشل میڈیا کے کردار کے اہم سنگم پر کھڑا ہے۔
پس منظر: جناح ہاؤس حملہ اور اس کا دائرہ
9 مئی 2023 کو پاکستان میں سیاسی کشیدگی نے خطرناک رخ اختیار کیا، جب سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ انہی مظاہروں میں سے ایک لاہور میں واقع کور کمانڈر ہاؤس (جناح ہاؤس) پر حملے کی شکل میں سامنے آیا، جسے ریاستی اور عسکری حلقوں نے ریڈ لائن کی خلاف ورزی قرار دیا۔
اس حملے کے بعد سینکڑوں مظاہرین کے خلاف دہشت گردی، بغاوت، اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ ان مقدمات میں گرفتار افراد میں کئی سیاسی کارکن، عام شہری، اور مبینہ طور پر سوشل میڈیا پر متحرک افراد بھی شامل ہیں۔ انہی میں شاہ ریز خان کا نام بھی اب سامنے آیا ہے، جس پر مظاہرین کو اکسانے کا الزام عائد کیا گیا۔
عدالتی کارروائی: ضمانت کی درخواست پر دلائل کا خلاصہ
سماعت کے دوران شاہ ریز خان کے وکیل رانا مدثر نے عدالت کے سامنے تفصیلی دلائل پیش کیے۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ:
شاہ ریز پر صرف الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے مظاہرین کو اکسانے کا کردار ادا کیا، لیکن اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس یا ناقابلِ تردید شواہد موجود نہیں۔
مقدمے میں ہر شخص کی جیو فینسنگ کی گئی ہے، اور اس کے باوجود شاہ ریز کے خلاف کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔
چالان میں شاہ ریز کا کہیں نام موجود نہیں، اور نہ ہی کسی تفتیشی افسر نے ان کے خلاف کوئی بیان دیا۔
وکیل کے مطابق، یہ گرفتاری سیاسی دباؤ کے تحت عمل میں لائی گئی، کیونکہ شاہ ریز کی والدہ علیمہ خان عوامی سطح پر پارٹی بانی کے حق میں آواز بلند کرتی رہی ہیں، اور اس کو خاموش کرنے کے لیے یہ کارروائی کی گئی۔
وکیل نے مزید کہا کہ شاہ ریز چترال میں موجود تھا، اور اس حوالے سے بیانِ حلفی بھی پیش کیے گئے ہیں جن میں گواہوں نے ان کی غیر موجودگی کی تصدیق کی ہے۔
عدالت نے دورانِ سماعت وکیل سے مختصر دلائل دینے کو کہا، جس پر رانا مدثر نے مؤقف اختیار کیا کہ آج تک کسی بھی تحقیقاتی ادارے نے شاہ ریز کو باقاعدہ طلب نہیں کیا، اس لیے یہ گرفتاری غیر قانونی اور غیر آئینی ہے۔
سرکاری وکیل کا مؤقف: شک کا فائدہ نہیں دیا جا سکتا
دوسری جانب، سرکاری وکیل نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ:
شاہ ریز کی جانب سے پیش کیے گئے بیاناتِ حلفی کی تصدیق تاحال نہیں ہو سکی۔
سوشل میڈیا پر موجود تصاویر کو بنیاد بنایا گیا ہے، جن میں شاہ ریز کے مبینہ دوستوں کو مظاہروں میں موجود دیکھا گیا ہے۔
اگرچہ شاہ ریز کے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کوئی تصویر موجود نہیں، لیکن ان کی سوشل سرکل کے افراد کی موجودگی سوالات کو جنم دیتی ہے۔
لہٰذا، سرکاری وکیل نے درخواست کی کہ ضمانت مسترد کی جائے، کیونکہ یہ ایک ریاستی سطح کا حساس کیس ہے۔
عدالت کا رویہ: شفافیت یا دباؤ؟
دورانِ سماعت عدالت کا رویہ نسبتاً مصروف دکھائی دیا۔ جج نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
"جلدی دلائل مکمل کریں، میں نے جیل جانا ہے۔ یا باقی دلائل جیل سے آ کر مکمل کریں۔”
اس تبصرے نے کئی حلقوں میں عدالتی نظام کے دباؤ اور کیس کی نوعیت کی حساسیت پر بھی سوالات کو جنم دیا ہے۔ کیا عدالتیں ایسے اہم اور حساس کیسز میں مکمل توجہ اور غیرجانبداری کے ساتھ فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس پر سول سوسائٹی، میڈیا، اور قانونی ماہرین غور کر رہے ہیں۔
سیاسی اور عوامی ردعمل: کیس کی حساس نوعیت
یہ کیس عام قانونی معاملے سے بڑھ کر سیاسی اور سماجی سیاق و سباق کا حامل بن چکا ہے۔ ایک طرف حکومتی حلقے اس مقدمے کو ریاست کے وقار اور قانون کی بالادستی سے جوڑتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ناقدین اس کیس کو سیاسی انتقام، خاندانوں کو دبانے، اور اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن کے طور پر دیکھتے ہیں۔
شاہ ریز کی گرفتاری پر سوشل میڈیا پر بھی شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ کچھ حلقے اسے "ظلم” قرار دے رہے ہیں جبکہ کچھ اسے "قانون کی عملداری” کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں۔
کیا شاہ ریز خان کو ضمانت ملے گی؟ قانونی ماہرین کی رائے
قانونی ماہرین کے مطابق:
اگر شاہ ریز واقعی چترال میں موجود تھے اور اس کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں تو عدالت کے پاس ضمانت دینے کی قانونی گنجائش موجود ہے۔
تاہم، ریاستی نوعیت کے مقدمات میں عدالتیں بعض اوقات سیاسی دباؤ یا عوامی جذبات کے پیش نظر فیصلہ محفوظ رکھتی ہیں یا تاخیر سے سناتی ہیں۔
عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ مستقبل کی تحقیقات پر ضمانت کا کیا اثر پڑے گا۔
اہم فیصلہ آنے کو ہے
فی الوقت عدالت نے شاہ ریز کی ضمانت پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے، اور ملک بھر کی نظریں اس فیصلے پر جمی ہوئی ہیں۔ یہ فیصلہ صرف ایک شخص کی رہائی سے بڑھ کر عدالتی نظام کی شفافیت، قانونی اصولوں کی پاسداری، اور انسانی حقوق کے نفاذ سے جُڑا ہے۔
اگر شاہ ریز کو ضمانت مل جاتی ہے تو یہ پیغام جائے گا کہ ثبوت کے بغیر گرفتاری قابلِ قبول نہیں۔ اگر ضمانت مسترد ہو جاتی ہے، تو ممکنہ طور پر یہ بحث جنم لے گی کہ ریاستی ادارے عدالتی خودمختاری پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔
