جوڈیشل کمپلیکس خودکش حملہ—تفتیش میں حیران کن حقائق سامنے آگئے
جوڈیشل کمپلیکس خودکش حملہ—تفتیشی اداروں کے اہم انکشافات اور پس منظر
اسلام آباد میں ہونے والے جوڈیشل کمپلیکس خودکش حملہ میں ملوث گرفتار سہولت کاروں اور ہینڈلرز نے دورانِ تفتیش حیران کن انکشافات کیے ہیں۔ اب تک سامنے آنے والی تفصیلات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حملہ صرف ایک مقام پر نہیں ہونا تھا بلکہ دہشتگرد نے اس سے پہلے بھی ایک اور بڑی کارروائی کی کوشش کی تھی جو ناکامی کا شکار ہوئی۔

تفتیشی اداروں کے مطابق حملہ آور اور اس کے سہولت کار افغانستان میں موجود کالعدم تنظیم کے رہنماؤں کے مسلسل رابطے میں تھے، جبکہ ہدایات ٹیلی گرام ایپ کے ذریعے جاری کی جاتی رہیں۔ یہ حملہ نہ صرف ایک بڑے نیٹ ورک کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ پاکستان میں دہشتگردی کے بدلتے طریقہ کار کا عکاس بھی ہے۔
فیض آباد ناکا—پہلا ہدف جو ناکام رہا
تفتیشی اہلکاروں کے مطابق جوڈیشل کمپلیکس خودکش حملہ کرنے والا حملہ آور پہلے فیض آباد ناکے پر حملہ کرنا چاہتا تھا۔
ذرائع کے مطابق:
خودکش حملہ آور فیض آباد ناکے تک پہنچ بھی چکا تھا۔
حملہ کرنے کی کوشش کے دوران وہ بارودی مواد کی پن نہ نکال سکا۔
پن نہ نکلنے پر حملہ ناکام ہو گیا۔
حملہ آور فوراً واپس راولپنڈی کے علاقے کی طرف چلا گیا۔
یہ ناکامی دہشتگرد کی جلد بازی، غیر تربیت یافتہ ہونے یا تکنیکی مسائل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
جوڈیشل کمپلیکس خودکش حملہ—اصل کارروائی
فیض آباد ناکے پر ناکامی کے چند دن بعد دہشتگرد نے اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس کے باہر خودکش دھماکا کیا، جس کے نتیجے میں:13 افراد شہید30 سے زائد زخمی ہوئے۔

یہ حملہ انتہائی منظم انداز میں منصوبہ بندی کے بعد کیا گیا، جس میں سہولت کاروں اور ہینڈلرز کا کردار مرکزی رہا۔
افغانستان سے تعلق رکھنے والا خودکش بمبار
تحقیقات کے مطابق خودکش بمبار عثمان عرف "قاری”:
افغانستان کے صوبے ننگرہار کا رہائشی تھا
شنواری قبیلے سے تعلق رکھتا تھا
ٹی ٹی پی اور فتنۃ الخوارج کے کمانڈروں کے رابطے میں تھا
یہ تفصیلات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ جوڈیشل کمپلیکس خودکش حملہ سرحد پار موجود دہشتگرد قیادت کی براہِ راست نگرانی میں ہوا۔
ٹی ٹی پی کمانڈر کی ہدایات—ٹیلی گرام ایپ استعمال
انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق:
ٹی ٹی پی کے کمانڈر سعید الرحمان عرف داد اللہ نے ہدایت جاری کی۔
وہ افغانستان میں موجود تھا اور پاکستان میں موجود نیٹ ورک کو کنٹرول کر رہا تھا۔
حملے کا ملزم ساجد اللہ عرف "شینا” ہینڈلر کے طور پر کام کرتا تھا۔
داد اللہ نے ہینڈلر کو حملہ آور کی تصاویر بھیجیں تاکہ اسے پاکستان میں ریسیو کیا جا سکے۔
یہ پورا نیٹ ورک ٹیلی گرام ایپ کے ذریعے مربوط طریقے سے کام کر رہا تھا، جس سے دہشتگردی کے جدید طریقہ کار کا اندازہ ہوتا ہے
سہولت کاروں کا کردار—پاکستان میں نیٹ ورک کی سرگرمیاں
گرفتار سہولت کاروں نے انکشاف کیا کہ:
وہ حملہ آور کو مختلف ٹھکانوں پر منتقل کرتے رہے۔
حملہ آور کی رہائش، نقل و حمل اور جیکٹ کی فراہمی میں سہولت فراہم کی۔
خودکش جیکٹ پشاور کے قریب سے حاصل کی گئی۔
یہ سب ہدایات براہِ راست افغانستان سے جاری کی جاتی رہیں۔
جوڈیشل کمپلیکس خودکش حملہ—تفتیش کے مزید پہلو
تفتیشی اہلکاروں کے مطابق:
یہ حملہ ایک بڑے نیٹ ورک کا حصہ تھا۔
پاکستان میں موجود دہشتگرد صرف "آپریشنل ورکرز” تھے۔
اصل منصوبہ ساز اور پالیسی ساز افغانستان میں موجود تھے۔
نیٹ ورک کے مزید اراکین کی گرفتاری کی توقع ہے۔
یہ پہلو پاکستان میں دہشتگردی کی نئی لہر کے ڈھانچے کو سمجھنے کے لیے اہم ہیں۔
جوڈیشل کمپلیکس خودکش حملہ—سیکیورٹی اداروں کی کامیابی
اگرچہ حملہ افسوسناک تھا لیکن:
سیکیورٹی اداروں نے حملے کے فوراً بعد پورا سیل بے نقاب کر لیا۔
سہولت کاروں اور ہینڈلرز کو گرفتار کر لیا گیا۔
مزید دہشتگرد کارروائیوں کو روکنے کے لیے اہم معلومات حاصل کرلی گئیں۔
یہ آپریشن مستقبل میں ایسے حملوں کی روک تھام میں مددگار ثابت ہوگا۔
اسلام آباد کچہری حملہ، سکیورٹی اداروں کی بڑی کامیابی سہولت کار اور ہینڈلر گرفتار
جوڈیشل کمپلیکس خودکش حملہ محض ایک واقعہ نہیں تھا بلکہ ایک منظم نیٹ ورک کا حصہ تھا جسے افغانستان سے کنٹرول کیا جا رہا تھا۔
تفتیشی اداروں کے اہم انکشافات نے نہ صرف حملے کے محرکات واضح کیے بلکہ دہشتگردی کے پورے نیٹ ورک کی فعالیت بھی بے نقاب کی۔
یہ واقعہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان کو اب بھی منظم، تربیت یافتہ اور بیرونی حمایت یافتہ دہشتگرد گروہوں سے خطرات لاحق ہیں، جن کا مقابلہ مربوط حکمت عملی سے کرنا ضروری ہے۔









