کبوتر کیمرہ: پیغام رسانی سے خفیہ جاسوسی تک کی حیران کن داستان
پیغام رسانی کی ابتدا
کبوتروں کو پیغام رسانی کے لیے تقریباً تین ہزار سال قبل استعمال کیا گیا۔ مصر کے فرعونوں سے لے کر بادشاہ سلیمانؑ تک، اور بعد ازاں مسلمانوں کے ادوار میں کبوتروں کو پیغامات پہنچانے کے لیے تربیت دی جاتی تھی۔ نورالدین زنگی کے دور (567ء) میں اس نظام کو شام اور مصر میں باضابطہ بنایا گیا۔ بغداد میں 1150ء میں اس کو مزید منظم کیا گیا۔
کبوتروں کی انوکھی صلاحیت
کبوتروں کو پیغام رسانی میں ایک قدرتی جبلت پائی جاتی ہے جسے "ہومنگ انسٹنکٹ” کہا جاتا ہے۔ یہ صلاحیت انہیں ہزاروں میل دور سے بھی اپنے اصل گھونسلے یا آبائی جگہ پر واپس لے آتی ہے۔ اسی لیے کبوتروں کو جنگوں اور خفیہ پیغامات کے تبادلے کے لیے موزوں سمجھا گیا۔
جنگوں میں کبوتروں کا کردار
پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں کبوتروں نے پیغام رسانی کا لازوال کردار ادا کیا۔ کئی کبوتروں نے اہم فوجی پیغامات پہنچا کر ہزاروں جانیں بچائیں۔ ان خدمات کے عوض انہیں میڈلز تک دیے گئےتھے ۔ یہ صرف پیغام رسانی ہی نہیں بلکہ جنگی تاریخ میں وفاداری کی علامت بھی بنے۔
کبوتر کیمرہ اور جاسوسی
وقت کے ساتھ ساتھ پیغام رسانی سے آگے بڑھ کر کبوتروں کو جاسوسی کے لیے استعمال کیا گیا۔ سرد جنگ کے دوران سی آئی اے نے ایک نیا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے تحت کبوتروں کے ساتھ ننھے کیمرے باندھے گئے۔ یہ کبوتر کیمرہ نہایت ہلکا اور چھوٹا تھا (تقریباً 35 گرام وزنی) لیکن تصاویر لینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
جہاز اور سیٹلائٹ دور سے تصاویر کھینچتے تھے، مگر کبوتروں کے نیچے لگے کیمرے زمینی سطح کے قریب سے زیادہ واضح اور کارآمد تصویریں فراہم کرتے تھے۔
انٹرنیشنل اسپائی میوزیم کی جھلک
واشنگٹن ڈی سی میں موجود انٹرنیشنل اسپائی میوزیم دنیا بھر کے جاسوسی آلات کا ایک بڑا ذخیرہ ہے۔ یہاں قلم کے اندر چھپے کیمرے، خفیہ گاڑیاں اور دیگر آلات رکھے گئے ہیں۔ ان ہی میں ایک کبوتر کیمرہ بھی موجود ہے۔ اگرچہ یہ اصلی نہیں بلکہ نقل ہے، مگر اصل نمونہ سی آئی اے کے نجی میوزیم ورجینیا میں موجود ہے۔
کبوتروں کے ذریعے جاسوسی کیسے کی جاتی تھی؟(pegham rasani se khofiya jasosi tak)
سی آئی اے نے منصوبہ بنایا کہ کبوتروں کو ماسکو جیسے شہروں میں چھوڑا جائے۔ یہ پرندے اپنی پرواز کے دوران قریبی فاصلے سے خفیہ تصاویر لیتے اور واپس اپنے مقام پر آ جاتے۔ ان کیمروں کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا تھا کہ یا تو فوری طور پر فوٹو گرافی شروع کریں یا کسی طے شدہ وقت کے بعد۔
اگرچہ آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کبوتروں کے کیمرے کتنی بار اور کہاں استعمال ہوئے، لیکن اس بات میں شک نہیں کہ یہ ٹیکنالوجی اپنے دور کی سب سے منفرد اور حیران کن ایجاد تھی۔
انسان اور جانور: ایک مشترکہ تاریخ
انسان نے ہمیشہ جنگوں میں جانوروں کو شامل کیا۔ کبھی ہاتھیوں کو "زندہ ٹینک” کے طور پر استعمال کیا گیا، کبھی ڈولفن اور سی لائینز کو بارودی سرنگیں ڈھونڈنے پر لگایا گیا۔ مگر جاسوسی اور پیغام رسانی کے میدان میں سب سے کامیاب ثابت ہونے والا پرندہ صرف کبوتر تھا۔ کبوتر کیمرہ نے اس حقیقت کو اور بھی نمایاں کر دیا کہ یہ پرندہ انسان کی تاریخ میں کتنا اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔
کبوتروں نے صدیوں تک پیغام رسانی اور خفیہ اطلاعات پہنچانے میں انسان کی مدد کی۔ خاص طور پر سرد جنگ کے دوران استعمال ہونے والا کبوتر کیمرہ جاسوسی کی دنیا کا ایک دلچسپ باب ہے۔ یہ صرف ایک آلہ نہیں بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان نے اپنی ذہانت اور فطرت کے ملاپ سے کس طرح نئی راہیں نکالیں۔
