خلائی سفر اور انسانی خلیات کے درمیان تعلق نے دنیا کو چونکا دیا
خلائی سفر اور انسانی خلیات پر تحقیق کا آغاز
انسان صدیوں سے خلا کو تسخیر کرنے کی کوشش میں ہے۔ چاند پر قدم رکھنے کے بعد اب انسان مریخ اور اس سے آگے کے سفر کا خواب دیکھ رہا ہے۔ لیکن نئی سائنسی تحقیق نے ایک چونکا دینے والا پہلو اجاگر کیا ہے کہ خلائی سفر اور انسانی خلیات (Space travel and human cells) کے درمیان تعلق ہماری توقعات سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہے۔
ناسا اور اسپیس ایکس کی تحقیق
ناسا اور اسپیس ایکس نے مل کر 2021 سے 2023 کے دوران کئی مشنز پر تحقیق کی۔ اس تحقیق میں خون بنانے والے بنیادی خلیات یعنی اسٹیم سیلز خلا میں بھیجے گئے۔ یہ خلیات جسم کے لیے نہایت اہم ہیں کیونکہ یہ خون کے نئے خلیات پیدا کرتے ہیں اور مدافعتی نظام کو مضبوط رکھتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق خلا میں بھیجے گئے خلیات واپس زمین پر آنے کے بعد مختلف تبدیلیوں کا شکار پائے گئے۔ سائنس دانوں نے ان کا موازنہ زمین پر موجود عطیہ دہندگان کے خلیات سے کیا اور حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔
خلائی سفر اور انسانی خلیات میں بڑھاپے کی رفتار
تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ خلا میں موجود خلیات عام حالات کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بوڑھے ہو گئے۔ ان کے کروموسومز کے آخر میں وہ نشانیاں ظاہر ہوئیں جو عام طور پر بڑھاپے کے ساتھ آتی ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ خلائی سفر اور انسانی خلیات کے درمیان ایسا تعلق موجود ہے جو بڑھاپے کی رفتار کو تیز کر دیتا ہے۔
ڈی این اے کو نقصان
مزید یہ کہ خلا میں موجود خلیات کے ڈی این اے کو زیادہ نقصان پہنچنے کا خطرہ پایا گیا۔ زمین پر فضا اور مقناطیسی فیلڈ ہمیں تابکاری سے بچاتے ہیں، لیکن خلا میں یہ تحفظ موجود نہیں۔ نتیجتاً خلیات زیادہ توانائی والی تابکاری کے سامنے آ جاتے ہیں جو ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور کینسر یا دیگر مہلک بیماریوں کا سبب بن سکتی ہے۔
کم کشش ثقل کے اثرات
کم کشش ثقل کا بھی انسانی جسم پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ کم کشش ثقل کے باعث خلیات زیادہ فعال ہو جاتے ہیں اور ان کے ذخائر تیزی سے ختم ہو جاتے ہیں۔ انہیں آرام اور بحالی کا وقت نہیں ملتا، جس سے ان کی عمر کم ہو جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہڈیوں کی کثافت گھٹتی ہے اور پٹھے سکڑ جاتے ہیں، جو خلا میں موجود خلا نوردوں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔
مدافعتی نظام اور انسانی خلیات
خلائی سفر کے دوران مدافعتی نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔ چونکہ اسٹیم سیلز مدافعتی خلیات بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس لیے ان کی کمزوری کا مطلب ہے کہ جسم بیماریوں اور انفیکشنز کے خلاف کمزور ہو جائے گا۔ خلائی سفر اور انسانی خلیات کے درمیان یہ تعلق مستقبل میں طویل مشنز کے لیے تشویشناک ثابت ہو سکتا ہے۔
مائٹوکونڈریا اور توانائی کی پیداوار
تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ خلا میں خلیات کے اندر توانائی بنانے والے مائٹوکونڈریا پر دباؤ کے آثار ظاہر ہوئے۔ جب مائٹوکونڈریا متاثر ہوتے ہیں تو جسم توانائی پیدا کرنے میں مشکل محسوس کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں تھکن، کمزوری اور مختلف بیماریوں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
افراد میں مختلف ردعمل
دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام عطیہ دہندگان کے خلیات نے خلا میں ایک جیسے ردعمل نہیں دکھائے۔ ڈاکٹر کیتریونا جیمیسن کے مطابق کچھ افراد کے خلیات نے بڑھاپے کے اثرات کے خلاف زیادہ مزاحمت کی، جب کہ کچھ بہت تیزی سے متاثر ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل میں خلائی سفر کے لیے افراد کا انتخاب کرتے وقت ان کے خلیاتی ردعمل کا تجزیہ بھی ضروری ہوگا۔
ممکنہ خطرات
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ خلائی سفر اور انسانی خلیات کے درمیان یہ تعلق کینسر، دل کی بیماریوں اور اعصابی مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ یہ اثرات نہ صرف خلا نوردوں بلکہ مستقبل میں مریخ یا دیگر سیاروں پر آباد ہونے والے انسانوں کے لیے بھی بڑے خطرات پیش کر سکتے ہیں۔
مستقبل کے لیے چیلنج
اب سائنس دان اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ خلا میں خلیات کو کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ کیا خصوصی ادویات یا ٹیکنالوجیز تیار کی جا سکتی ہیں جو خلیات کو تابکاری اور کم کشش ثقل کے اثرات سے بچا سکیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب مستقبل کے طویل خلائی سفر کے لیے ضروری ہیں۔
یہ تحقیق ایک بار پھر اس بات کا ثبوت ہے کہ خلائی سفر اور انسانی خلیات کے درمیان تعلق نہایت پیچیدہ اور خطرناک ہے۔ اگرچہ خلا کی کھوج انسانیت کا خواب ہے لیکن یہ خواب بہت بڑی سائنسی اور طبی چیلنجز کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اگر ان مسائل کا حل تلاش نہ کیا گیا تو مستقبل کے مشنز میں خلا نوردوں کی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
بالوں سے بنا ٹوتھ پیسٹ سائنسدانوں کی حیران کن دریافت










