خواجہ آصف کا قومی اسمبلی میں انکشاف — حالیہ سیلاب قدرتی نہیں بلکہ انسانی غلطیوں کا نتیجہ ہے، آبی گزرگاہوں پر غیرقانونی کمرشل تعمیرات کی گئیں، جس سے تباہی وبربادی ہوئی، وزیر دفاع
اسلام آباد : — قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے حالیہ سیلابی تباہ کاریوں کو محض "قدرتی آفت” قرار دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب انسانی غلطیوں، بے ہنگم تعمیرات اور دریاؤں پر قبضوں کا شاخسانہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فطرت کے ساتھ کھیل کھیلا ہے اور اب فطرت ہمیں اس کی سزا دے رہی ہے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس اور سیلاب پر بحث
اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری نے سیلابی صورتحال پر بحث کی تحریک پیش کی۔ اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ہر سال سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہم اپنی پالیسیوں اور رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں لاتے۔
ان کا کہنا تھا:
"یہ آفت قدرتی نہیں بلکہ ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے۔ ہم نے دریاؤں پر ہوٹل بنائے، ان کے راستے تنگ کیے، ہاؤسنگ سوسائٹیاں بیچ ڈالیں اور نالوں پر پلاٹ بنا کر بیچ دیے۔ جب ہم قدرت سے کھیل کھیلیں گے تو پھر فطرت اس کا جواب دے گی۔”
آبی گزرگاہوں پر قبضے اور کمرشل تعمیرات
وزیر دفاع نے بتایا کہ پاکستان بھر میں آبی گزرگاہوں پر کمرشل تعمیرات کی گئیں، حتیٰ کہ دریاؤں کی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا دی گئیں۔ سیالکوٹ میں بھی دریا کے راستوں کو آباد کر دیا گیا، جس کی وجہ سے پانی براہِ راست آبادیوں میں داخل ہو کر تباہی مچاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ:
"ہم ہر سال اربوں ڈالر کے نقصان کا اعلان کرتے ہیں، دنیا اور اقوام متحدہ سے مدد مانگتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے اپنے دریا اور ندی نالے کس طرح بند کر دیے ہیں۔”
ڈیمز پر سیاست — "آمریت میں منصوبے مکمل، جمہوریت میں صرف اختلاف”
خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں ایک بار پھر ڈیموں کے معاملے پر سیاسی اختلافات کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کے مطابق آمریت کے ادوار میں بڑے ڈیمز بنے کیونکہ وہاں فیصلہ کرنے کی طاقت تھی، مگر جمہوری ادوار میں ڈیموں پر کبھی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔
انہوں نے کہا:
"سیاسی ادوار میں کوئی اوپر دیکھ رہا ہوتا ہے، کوئی نیچے، اور کوئی ادھر ادھر۔ یہی ہماری دکانداری ہے۔ ہم قومی معاملات کو بھی سیاست کی نذر کر دیتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ بھاشا اور مہمند ڈیم جیسے منصوبوں کو مکمل ہونے میں پندرہ سال لگ جائیں گے، جبکہ ملک کو فوری طور پر درجنوں چھوٹے ڈیمز کی ضرورت ہے جو ایک یا دو سال میں مکمل ہو سکتے ہیں۔
وزیراعظم کا پنجاب کے سیلابی علاقوں کا دورہ ، پانی ذخیرہ کرنے اور ڈیمز کی گنجائش بڑھانے کی ضرورت ہے
سیلاب — "مین میڈ ڈیزاسٹر”
وزیر دفاع نے اپنی تقریر میں کہا کہ حالیہ سیلاب کو محض قدرتی آفت قرار دینا درست نہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک "مین میڈ ڈیزاسٹر” ہے، جسے انسانوں نے اپنی پالیسیوں، آبی گزرگاہوں پر غیرقانونی کمرشل تعمیرات اور لاپرواہیوں سے جنم دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ "12 سے 14 سال میں کئی بار سیلاب آیا، لیکن کبھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ہم قدرتی گزرگاہوں کو کیوں بند کر رہے ہیں؟ دریاؤں کی حدود پر قبضے کیوں ہو رہے ہیں؟”
ایوان بالا پر تنقید
خواجہ آصف نے اپنی تقریر میں ایوان بالا (سینیٹ) کے ایک رکن پر بھی شدید تنقید کی اور کہا کہ ان کی کمپنی نے سیالکوٹ شہر کو تباہ کیا ہے آبی گزرگاہوں پر غیرقانونی کمرشل تعمیرات عوام کو نقصان پہنچا ہے۔ "یہ رکن نہ عوامی مقبولیت رکھتے ہیں اور نہ ہی عوامی مینڈیٹ، لیکن ایوان بالا میں بیٹھے ہیں اور عوام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔”
ناقص تعمیرات اور سڑکوں کی بربادی
انہوں نے کہا کہ سیالکوٹ میں بننے والی سڑکیں ناقص تعمیرات کی وجہ سے بار بار ٹوٹ جاتی ہیں اور یہ سب بدعنوانی اور طاقتور طبقے کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ "یہ لوگ عوامی مینڈیٹ کے بغیر ایوانوں میں آ جاتے ہیں اور اپنی جیبیں بھرتے ہیں، جبکہ عوام ہر سال تباہی سہتے ہیں۔”
چھوٹے ڈیمز اور آبی ذخائر کی ضرورت
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کو بڑے ڈیمز کے بجائے فوری طور پر چھوٹے ڈیمز اور ذخائر بنانے کی ضرورت ہے۔ بڑے منصوبوں پر سیاست ہوتی ہے اور وہ کئی دہائیوں تک مکمل نہیں ہوتے، جبکہ چھوٹے منصوبے فوری ریلیف دے سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا:
"نئے ڈیم بننے میں دس پندرہ سال لگ جاتے ہیں، لیکن اگر ہم ہر صوبے میں درجنوں چھوٹے ڈیم بنا لیں تو اگلے ایک دو سال میں صورتحال بدل سکتی ہے۔”
قومی اتفاق رائے کی ضرورت
خواجہ آصف(khawaja asif) نے سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ کم از کم ایسے قومی معاملات پر تو اتفاق رائے پیدا کریں جن کا تعلق عوام کی زندگی اور مستقبل سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ:
"پانی اور کلائمٹ کا مسئلہ صرف قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے۔ اس پر سیاست نہیں بلکہ اتفاق رائے درکار ہے۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں ہر چیز پر سیاست ہوتی ہے، حتیٰ کہ ڈیم یا نہر بنانے پر بھی سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔”
تجزیہ — سیاست بمقابلہ قومی مفاد
ماہرین کے مطابق خواجہ آصف کی تقریر دراصل اس تلخ حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان میں ماحولیاتی اور آبی پالیسی ہمیشہ سے سیاست کی نذر ہوتی آئی ہے۔ بڑے منصوبے برسوں تک اعلانات اور فائلوں میں پھنسے رہتے ہیں، چھوٹے منصوبے کرپشن کی نظر ہو جاتے ہیں اور نتیجتاً عوام ہر سال تباہی کا شکار ہوتے ہیں۔
پاکستان میں پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ 2025 تک ملک شدید پانی کی قلت کا شکار ہو سکتا ہے۔ ایسے میں اگر سیاسی جماعتوں نے قومی اتفاق رائے پیدا نہ کیا تو آنے والے برسوں میں صورتحال مزید خطرناک ہو جائے گی۔
ہر بار سیلاب آتا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ اربوں ڈالر کا نقصان ہوگیا کبھی ہم اقوام متحدہ سے اپیل کرتے ہیں کبھی دوسرے ممالک سے اپیل کرتے ہیں لیکن اپنے اعمال ٹھیک نہیں کرتے۔سیلاب بارشوں کی وجہ سے نہیں بلکہ دریاؤں کی زمینوں پر غیرقانونی تعمیرات زیادہ نقصان کا باعث بنی۔ pic.twitter.com/1puveFWHyx
— PMLN (@pmln_org) September 1, 2025