وزیر دفاع خواجہ آصف کی افغان طالبان کو انتباہ — “غاروں میں واپس دھکیلنے کے لیے معمولی قوت کافی ہے”، تورا بورا جیسے مناظر دوبارہ دیکھا سکتے ہیں
اسلام آباد (رئیس الاخبار) — وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کو سخت الفاظ میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ پاکستان کے عزم کو آزمانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے انجام پر آزمانا چاہیے، کیونکہ طالبان حکومت کو ختم کرنے اور دوبارہ غاروں میں دھکیلنے کے لیے معمولی قوت ہی کافی ہے۔
خواجہ آصف نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ‘ایکس’ (X) پر جاری بیان میں کہا کہ "ہم نے طالبان کی بے وفائی اور تمسخر برداشت کیا، لیکن اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اگر پاکستان کے اندر کسی بھی دہشت گردانہ حملے یا خودکش دھماکے کی کوشش ہوئی تو ہم انہیں ایسی مہم جوئیوں کا کڑوا ذائقہ ضرور چکھائیں گے۔”
خواجہ آصف کی افغان طالبان کو انتباہ”افغان طالبان نے پاکستان کے عزم کا غلط اندازہ لگایا”
وزیر دفاع خواجہ آصف کی افغان طالبان کو انتباہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان نے برادر ممالک کی درخواست پر امن کو موقع دینے کے لیے مذاکرات کیے، مگر کابل کے حکمرانوں کے بعض زہریلے بیانات اُن کے مکار اور انتشار پسند ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان اگر چاہیں تو تورا بورا جیسے مناظر دوبارہ دیکھ سکتے ہیں، اور دنیا ان کے فرار کے منظر کو ایک تماشے کے طور پر دیکھے گی۔
خواجہ آصف نے واضح کیا کہ “پاکستان کو طالبان عہد ختم کرنے کے لیے اپنی عسکری طاقت کے معمولی استعمال کی بھی ضرورت نہیں۔ طالبان حکومت کے اندر جنگی شوقین عناصر نے ہمارے عزم اور حوصلے کا غلط اندازہ لگایا ہے۔”
تورا بورا کی جنگ کیا تھی؟
تورا بورا کی جنگ” (Battle of Tora Bora) دراصل افغانستان کی جنگ کا ایک انتہائی اہم اور خوفناک باب تھی، جو دسمبر 2001 میں لڑی گئی۔
11 ستمبر 2001 (9/11) کے حملوں کے بعد امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تاکہ طالبان حکومت اور القاعدہ کو ختم کیا جا سکے۔
اطلاعات کے مطابق اسامہ بن لادن اپنے ساتھیوں کے ساتھ تورا بورا کے پہاڑوں میں چھپا ہوا تھا
امریکی افواج نے شدید بمباری اور افغان اتحادی ملیشیا کے ذریعے اس علاقے کو گھیر لیا۔
امریکا نے ہزاروں ٹن بم گرائے — جن میں “Daisy Cutter” جیسے بڑے بم بھی شامل تھے، جو زمین ہلا دیتے تھے۔
سینکڑوں جنگجو مارے گئے، لاشیں پہاڑوں میں بکھر گئیں، اور کئی دن تک گولہ باری جاری رہی۔
پہاڑوں میں موجود غاروں کے اندر کی لڑائی ہاتھوں سے، خنجر سے اور گرینیڈوں سے بھی ہوئی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کی افغان طالبان کو انتباہ کرنے کا مقصد بھی واضح الفاظ میں پاکستان کی صلاحیت سے خبردار کرنا تھا۔
استنبول مذاکرات کی ناکامی اور کشیدگی میں اضافہ
ان بیانات سے قبل پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کے مطابق مذاکرات کی ناکامی کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوگئی، جس میں سرحدی جھڑپیں، جوابی بیانات اور الزامات شامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق استنبول میں تین روزہ مذاکرات میں طالبان نے دہشت گردی کے خاتمے کی تحریری یقین دہانی دینے سے انکار کر دیا، جبکہ پاکستان نے واضح موقف اپنایا کہ قابلِ توثیق ضمانتوں کے بغیر کوئی معاہدہ ممکن نہیں۔
ترکیہ اور قطر کی ثالثی ناکام
ترکیہ اور قطر نے مذاکرات کو بچانے کی کوشش کی، تاہم افغان وفد کے اندرونی اختلافات اور کابل سے ملنے والی نئی ہدایات کے باعث بات چیت بار بار تعطل کا شکار رہی۔
ذرائع کے مطابق طالبان وفد قندھار، کابل اور خوست کے گروپوں میں تقسیم کا شکار رہا، اور ہر نیا موقف مذاکرات کی پیش رفت کو سبوتاژ کرتا رہا۔
سرحدی صورتحال اور پاکستانی موقف
پاکستانی حکام کے مطابق 11 اکتوبر کو افغان سرحد سے پاکستانی علاقے پر حملے کے بعد کئی جھڑپیں ہوئیں، جن کے جواب میں پاکستان نے گل بہادر گروپ کے کیمپوں کو نشانہ بنایا۔
اسلام آباد نے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ طالبان حکومت دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔
(defence minister of pakistan khawaja asif)وزیر دفاع خواجہ آصف کی افغان طالبان کو انتباہ کے بعد سرحدی کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، تاہم دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان نے واضح پیغام دے دیا ہے کہ اب مزید مصلحت یا برداشت کی گنجائش باقی نہیں۔
برادر ممالک، جنہیں طالبان حکومت مسلسل درخواست کر رہی تھی، کی درخواست پر، پاکستان نے امن قائم کرنے کے لیے مذاکرات کی پیشکش قبول کی۔
تاہم بعض افغان حکام کے زہریلے بیانات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ طالبان حکومت میں انتشار اور دھوکہ دہی بتدریج موجود ہے۔
پاکستان واضح کرتاہے کہ اسے طالبان…
— Khawaja M. Asif (@KhawajaMAsif) October 29, 2025











Comments 2