معروف وکیل خواجہ شمس الاسلام کے قتل پر وکلا برادری سراپا احتجاج، سندھ ہائیکورٹ بار کی مذمت، کراچی بار کی ہڑتال کا اعلان
کراچی میں نامعلوم افراد کے ہاتھوں معروف وکیل خواجہ شمس الاسلام کے بہیمانہ قتل پر وکلا برادری شدید غم و غصے میں مبتلا ہے۔ سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشن نے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے نہ صرف ایک انفرادی سانحہ بلکہ پوری وکلا برادری پر حملہ قرار دیا ہے۔ کراچی بار نے اس واقعے کے خلاف کل بروز جمعہ مکمل عدالتی ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔
معروف وکیل خواجہ شمس الاسلام، جو کہ کئی اہم مقدمات میں پیش ہو چکے تھے اور قانون کے حلقوں میں ایک معتبر نام کے طور پر جانے جاتے تھے، کو گزشتہ شب ان کے گھر کے قریب فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ واقعے کے فوراً بعد وکلا برادری نے غم و غصے کا اظہار کیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی اور عدم تحفظ پر شدید تشویش ظاہر کی۔
"یہ صرف ایک وکیل پر حملہ نہیں، پوری برادری کو نشانہ بنایا گیا ہے”: سرفراز میتلو
سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سرفراز میتلو نے واقعے پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ شمس الاسلام کا قتل وکلا برادری کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ ان کا کہنا تھا،

"یہ صرف ایک فرد پر حملہ نہیں، بلکہ پوری وکلا برادری کی آزادی، خودمختاری اور انصاف کے لیے جدوجہد پر حملہ ہے۔ اس طرح کے واقعات نہ صرف وکلا کو خوفزدہ کرتے ہیں بلکہ عدالتی نظام کی بنیادیں بھی ہلا دیتے ہیں۔”
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ واقعے میں ملوث تمام ملزمان کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور عدالتی کارروائی کے ذریعے انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بار ایسوسی ایشنز خاموش نہیں بیٹھیں گی اور اگر قاتلوں کو جلد گرفتار نہ کیا گیا تو آئندہ کا لائحہ عمل مزید سخت ہو گا۔
کراچی بار کی فل ڈے ہڑتال، آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کل ہوگا
کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر عامر وڑائچ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ شمس الاسلام کے قتل کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا،

"خواجہ شمس کا قتل پولیس کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ ہے۔ ماضی میں بھی متعدد معروف وکلا کو ٹارگٹ کیا گیا، لیکن کسی بھی کیس میں مکمل انصاف نہیں ملا۔”
انہوں نے کہا کہ کراچی بار کل (جمعہ) فل ڈے اسٹرائیک کرے گی اور عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ ہوگا۔ "ہم صرف علامتی احتجاج نہیں کریں گے، بلکہ وکلا کی حفاظت کے لیے باقاعدہ حکمت عملی بنائیں گے جس کا اعلان کل وکلا اجلاس میں کیا جائے گا،” انہوں نے کہا۔
عامر وڑائچ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ جب تک قاتل گرفتار نہیں ہوتے اور مکمل تحقیقات سامنے نہیں آتیں، تب تک احتجاجی سلسلہ جاری رہے گا۔
وکلا تنظیموں کا سخت مؤقف، قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ
پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ بار کونسل اور دیگر وکلا تنظیموں نے بھی واقعے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ کوئی اتفاقیہ نہیں بلکہ ایک منظم سازش کے تحت انجام دیا گیا ہے تاکہ وکلا کو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے باز رکھا جا سکے۔
وکلا تنظیموں نے مطالبہ کیا ہے کہ:
- واقعے میں ملوث عناصر کو فوری گرفتار کیا جائے
- واقعے کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں
- وکلا کو تحفظ دینے کے لیے اسپیشل سیکیورٹی فورس قائم کی جائے
- حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے وکلا پر حملوں کو روکنے کے لیے پالیسی بنائیں
ماضی کے سانحات کی بازگشت
وکلا برادری اس واقعے کو ماضی کے اُن واقعات کی کڑی قرار دے رہی ہے جن میں کراچی، لاہور اور پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں وکلا کو نشانہ بنایا گیا۔
چند سال قبل کراچی کے ممتاز وکیل نذیر احمد کو اسی طرح ٹارگٹ کیا گیا تھا، جس کا مقدمہ تاحال التوا کا شکار ہے۔ پشاور میں فرید خان ایڈووکیٹ اور لاہور میں راشد محمود کے قتل جیسے واقعات نے پہلے ہی وکلا کو عدم تحفظ کا شکار کر دیا تھا، اور اب خواجہ شمس الاسلام کے قتل نے ان خدشات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
معاشرتی ردعمل اور عدالتی نظام پر اثرات
وکلا کے مطابق ایسے حملے صرف فردِ واحد کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ اس عدالتی نظام پر کاری ضرب لگاتے ہیں جو عام شہری کو انصاف مہیا کرنے کا واحد ذریعہ ہے۔ بار ایسوسی ایشنز نے اس امر پر زور دیا کہ اگر وکیل خود محفوظ نہیں ہوں گے تو وہ دوسروں کو انصاف کیسے دلا سکیں گے۔
ایک سینئر وکیل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا،
"آج خواجہ شمس کو مارا گیا، کل کوئی اور نشانہ ہو گا۔ ہمیں اب اجتماعی مؤقف اور لائحہ عمل کی ضرورت ہے، خاموشی اب جرم کے مترادف ہوگی۔”
حکومتی ردعمل کا انتظار
تاحال سندھ حکومت یا محکمہ داخلہ کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا، تاہم پولیس حکام کا کہنا ہے کہ واقعے کی تفتیش شروع کر دی گئی ہے اور جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔ پولیس نے مقتول کے موبائل ڈیٹا، سی سی ٹی وی فوٹیج اور کال ریکارڈز کی مدد سے تحقیقات آگے بڑھانے کی یقین دہانی کرائی ہے، لیکن وکلا ان بیانات پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔
وکلا برادری کے لیے فیصلہ کن موڑ
معروف وکیل خواجہ شمس الاسلام کا قتل پاکستان میں عدلیہ، وکلا اور انصاف کی فراہمی کے پورے عمل پر سوالیہ نشان بن چکا ہے۔ بار ایسوسی ایشنز نے احتجاج، ہڑتال اور ممکنہ طویل المدتی تحریک کی بنیاد رکھ دی ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا متقاضی ہے کہ حکومت فوری طور پر نہ صرف مجرموں کو گرفتار کرے بلکہ وکلا کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات بھی اٹھائے۔
اگر ریاست خاموش رہی تو اس کا مطلب ہوگا کہ وکلا تنہا ہیں — اور جب انصاف کے محافظ خود غیر محفوظ ہوں، تو عام شہری کو کون بچائے گا؟
Comments 1