کسانوں نے گنے کی سپلائی سے انکار کردیا کم قیمتوں پر شدید احتجاج
فیصل آباد کے علاقے میں کسانوں نے گنے کی کم قیمت پر شوگر ملوں کو سپلائی دینے سے انکار کر دیا۔
احتجاج کرنے والے کسانوں نے نڑوالا روڈ پر شدید احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا
کہ گنے کی کم از کم قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے۔
کسانوں کے اس فیصلے کے بعد شوگر ملوں کو گنے کی فراہمی متاثر ہونے کا خدشہ ہے،
جبکہ مقامی سطح پر چینی کی پیداوار پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔
احتجاج کی تفصیلات — کسانوں نے گنے کی سپلائی سے انکار کردیا
فیصل آباد کی تحصیل صدر میں درجنوں کسانوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا کر
حکومت اور شوگر مل مالکان کے خلاف نعرے بازی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے گنے کی قیمت میں اضافہ نہ کیا
تو وہ پورے پنجاب میں سپلائی روک دیں گے۔
کسان رہنماؤں نے کہا کہ کسانوں نے گنے کی سپلائی سے انکار کردیا
کیونکہ مل مالکان ان کی محنت کا منافع نہیں دے رہے۔
ایک کسان نے کہا،
"ہم دن رات محنت کرتے ہیں، لیکن ہمیں گنے کا ریٹ 400 روپے بھی نہیں دیا جا رہا۔
جب تک قیمت 500 روپے فی من نہیں ہوگی، سپلائی بند رہے گی۔”
کسانوں کا مطالبہ — 500 روپے فی من گنے کی قیمت مقرر کی جائے
کسانوں نے حکومت سے واضح طور پر مطالبہ کیا ہے
کہ گنے کی امدادی قیمت کم از کم 500 روپے فی من مقرر کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ ریٹ پر ان کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے۔
زرعی ماہرین کے مطابق اس وقت کھاد، بیج، مزدوری اور ڈیزل کے بڑھتے ہوئے اخراجات
کاشت کاروں کے لیے صورتحال کو مزید مشکل بنا رہے ہیں۔
اسی لیے کسانوں نے گنے کی سپلائی سے انکار کردیا
تاکہ حکومت اور مل مالکان ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کریں۔
بے جا کٹوتیوں پر کسانوں کا غصہ
کسانوں کا کہنا تھا کہ شوگر ملوں کی جانب سے گنے کے وزن میں
بے جا کٹوتیاں کی جاتی ہیں، جو سراسر ناانصافی ہے۔
ایک کسان رہنما نے کہا،
"مل والے پہلے ہی کم ریٹ دیتے ہیں،
اوپر سے وزن میں کٹوتی کر کے مزید نقصان پہنچاتے ہیں۔
جب تک یہ ظلم ختم نہیں ہوگا، ہم گنے نہیں بیچیں گے۔”
یہی وجہ ہے کہ اب کسانوں نے گنے کی سپلائی سے انکار کردیا
اور احتجاج کو پورے پنجاب تک پھیلانے کی دھمکی دی ہے۔
شوگر ملوں کو گنے کی فراہمی رکنے سے کیا ہوگا؟
اگر احتجاج طویل ہوا تو شوگر ملوں کو گنے کی فراہمی شدید متاثر ہوگی۔
اس سے چینی کی پیداوار میں کمی اور مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ
گنے کی فراہمی میں رکاوٹ آنے سے ان کی پیداوار پر برا اثر پڑے گا،
لہٰذا حکومت کو فوری طور پر مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔
لیکن دوسری طرف، کسانوں کا مؤقف ہے کہ جب تک
ان کے جائز مطالبات پورے نہیں کیے جاتے،
کسانوں نے گنے کی سپلائی سے انکار کردیا کی پالیسی برقرار رہے گی۔
حکومت کی خاموشی — کسانوں میں بے چینی
اب تک حکومت کی جانب سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا،
جس سے کسانوں میں مایوسی بڑھ رہی ہے۔
زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے گنے کی قیمتوں کا
واضح اعلان نہ کیا تو یہ احتجاج ملک بھر میں پھیل سکتا ہے۔
فیصل آباد کے کسانوں نے اعلان کیا ہے
کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے
تو وہ لاہور اور اسلام آباد میں بھی دھرنا دیں گے۔
ماہرین کی رائے — گنے کی قیمت میں اضافے کی ضرورت
معاشی ماہرین کے مطابق موجودہ مہنگائی کے دور میں
گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کرنا کسانوں کے لیے ضروری ہے۔
ان کے مطابق، کم ریٹ پر فصل بیچنے سے کسانوں کی آمدنی کم ہو جاتی ہے
اور آئندہ وہ گنے کی کاشت سے بھی دستبردار ہو سکتے ہیں۔
اسی لیے ماہرین بھی اس مؤقف کی حمایت کر رہے ہیں
کہ کسانوں نے گنے کی سپلائی سے انکار کردیا ان کے معاشی دباؤ کا ردعمل ہے۔
کسانوں کا پیغام — انصاف دو یا گنا نہیں ملے گا
احتجاج کے اختتام پر کسانوں نے حکومت کو سات دن کا الٹی میٹم دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر گنے کی قیمت میں اضافہ اور
کٹوتیوں پر پابندی عائد نہ کی گئی تو وہ
پورے پنجاب میں احتجاج کی نئی لہر شروع کریں گے۔
سندھ کا وفاق سے چاول کی امدادی قیمت مقرر کرنے کا مطالبہ
انہوں نے واضح کہا:
"اب فیصلہ کن وقت آ گیا ہے،
یا تو انصاف ملے گا، یا گنا نہیں ملے گا!”
اس عزم کے ساتھ کسانوں نے گنے کی سپلائی سے انکار کردیا
اور احتجاج کو مزید وسعت دینے کا اعلان کیا۔









