خیبرپختونخوا میں حالیہ بارشوں اور فلیش فلڈ کے نتیجے میں تباہی کی داستانیں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔
پروونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کی جانب سے جاری تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پختونخوا میں سیلابی ریلوں سے تباہی اس قدر شدید ہے کہ صرف 15 اگست سے اب تک 406 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جبکہ 245 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 167 خواتین اور 108 معصوم بچے شامل ہیں جو بارشوں اور آبی ریلوں کی زد میں آکر اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔
گھروں کی تباہی اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان
پی ڈی ایم اے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بارشوں اور فلیش فلڈ کے باعث 2810 گھروں کو نقصان پہنچا جن میں سے 674 مکانات مکمل طور پر منہدم ہوگئے۔ متاثرہ گھروں کے مکین اب کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
سب سے زیادہ نقصان ضلع بونیر میں ہوا جہاں 237 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ اس کے علاوہ صوابی میں 42، شانگلہ میں 36 اور دیگر اضلاع میں بھی متعدد اموات رپورٹ ہوئیں۔ کئی دیہات مکمل طور پر مٹی کے تودوں اور پانی کی لپیٹ میں آگئے، جہاں اب بھی امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔
قومی سطح پر مجموعی تباہی
نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک بھر میں حالیہ مون سون بارشوں اور فلیش فلڈ کے نتیجے میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 799 تک جا پہنچی ہے جبکہ 1080 سے زائد افراد زخمی ہیں۔
مزید یہ کہ مجموعی طور پر 7175 گھروں کو نقصان پہنچا، جن میں سے ہزاروں مکانات مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔ سیلابی ریلوں نے صرف رہائشی مکانات ہی نہیں بلکہ مال مویشیوں کو بھی نشانہ بنایا اور 5552 سے زیادہ مویشی ہلاک ہوگئے۔ اس نقصان نے کسان طبقے کو شدید مالی اور معاشی بحران سے دوچار کر دیا ہے۔
بونیر سب سے زیادہ متاثرہ ضلع
رپورٹ کے مطابق، ضلع بونیر پختونخوا کا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے۔ یہاں کے دیہات کلاؤڈ برسٹ اور فلیش فلڈ کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئے۔ مقامی حکام کے مطابق، بونیر میں اب بھی کئی دیہات ایسے ہیں جہاں زمینی رابطے منقطع ہیں اور امدادی ٹیمیں ہیلی کاپٹروں کی مدد سے متاثرہ علاقوں تک رسائی حاصل کر رہی ہیں۔

ڈپٹی کمشنر بونیر نے تصدیق کی ہے کہ صرف بونیر میں ہی 237 افراد جاں بحق ہوئے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ مقامی اسپتالوں میں زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے ہنگامی صورتحال نافذ کر دی گئی ہے جبکہ طبی عملے کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔
ریسکیو اور امدادی سرگرمیاں
پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے دونوں ادارے متاثرہ اضلاع میں امدادی کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایات دے چکے ہیں۔ ریسکیو اہلکاروں کے مطابق، متاثرہ علاقوں میں اب بھی لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے۔ کئی دیہات میں امدادی سرگرمیوں کے لیے ہیلی کاپٹر استعمال کیے جا رہے ہیں تاکہ محصور خاندانوں کو خوراک اور طبی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔

عوامی مشکلات اور انسانی بحران
پختونخوا میں سیلابی ریلوں سے تباہی نے عوامی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں، کئی خاندان اپنے پیاروں کی میتیں دفنانے کے لیے بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ پینے کے صاف پانی کی کمی، خوراک کی قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔
ماہرین کا انتباہ
ماہرین موسمیات کا کہنا ہے کہ مون سون کے دوران غیر معمولی بارشوں اور کلاؤڈ برسٹ جیسے واقعات میں آئندہ مزید اضافہ ہوسکتا ہے، جس کے لیے پیشگی اقدامات ضروری ہیں۔ ان کے مطابق، مناسب نکاسی آب کے نظام، دریاؤں کے پشتوں کو مضبوط کرنے اور آبادیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے اقدامات ناگزیر ہیں تاکہ مستقبل میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں اور املاک کے نقصان سے بچا جا سکے۔
حکومتی اقدامات
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے متاثرہ اضلاع کو آفت زدہ قرار دے کر امدادی پیکیجز کا اعلان کیا ہے۔ تاہم مقامی افراد کے مطابق، امداد کی فراہمی ناکافی ہے اور متاثرہ آبادیوں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر لوگ حکومتی تعاون سے محروم ہیں۔
حالیہ بارشوں اور فلیش فلڈ نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ پختونخوا میں سیلابی ریلوں سے تباہی ایک سنجیدہ اور دیرپا مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے صرف وقتی امداد کافی نہیں۔ پائیدار منصوبہ بندی، انفراسٹرکچر کی مضبوطی، آبی ذخائر کی بہتر مینجمنٹ اور متاثرہ آبادیوں کے لیے مستقل بحالی کے پروگرام وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
خیبرپختونخوا میں بارشوں اور فلش فلڈ کی تباہ کاریاں، اموات کی تعداد 393 تک جاپہنچی