احتجاج میں کم شرکت پر سلمان اکرم راجہ کی تشویش — عمران خان اور پارٹی قیادت سے بات کریں گے
راولپنڈی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینئر رہنما سلمان اکرم راجہ نے حالیہ احتجاج میں عوام کی کم شرکت پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ اس معاملے پر نہ صرف پارٹی قیادت بلکہ سابق وزیرِاعظم عمران خان سے بھی تفصیلی بات کریں گے۔ ان کے مطابق یہ ایک سنجیدہ سوال ہے جس کا حل صرف قیادت کی سطح پر ہی نکل سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آئندہ کی حکمت عملی کو ازسرنو ترتیب دینا ضروری ہو گیا ہے تاکہ عوامی شرکت کو یقینی بنایا جا سکے۔
غیر آئینی ٹرائلز پر اعتراض
اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں سلمان اکرم راجہ نے توشہ خانہ ٹو اور سائفر کیس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ ٹو کا ٹرائل مکمل طور پر غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ انہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ سائفر کیس میں عمران خان کے وکلاء، خاندان کے افراد اور میڈیا کو عدالت میں داخلے سے روک دیا گیا، جو کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو اسے کسی صورت "اوپن ٹرائل” نہیں کہا جا سکتا۔
چکری انٹرچینج پر قیادت کی موجودگی
سلمان اکرم راجہ نے انکشاف کیا کہ وہ اور محمود اچکزئی رات 11 بجے تک عمران خان کی بہنوں کے ساتھ چکری انٹرچینج پر موجود تھے۔ اس موقع پر احتجاج کی نگرانی اور زمینی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی کال پر اگر کوئی ایم این اے احتجاج میں شرکت نہیں کرتا اور اس کی کوئی معقول وجہ نہیں ہوتی تو اسے ضرور جواب دہ ہونا پڑے گا۔ پارٹی ڈسپلن اور قیادت سے وفاداری کا تقاضا یہی ہے۔
عوامی شرکت میں کمی: وجوہات اور خدشات
سلمان اکرم راجہ کے مطابق احتجاج کامیاب تو رہا لیکن اس میں وہ شدت اور جوش نظر نہیں آیا جس کی توقع تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ احتجاج مزید بہتر ہو سکتا تھا اور آئندہ یقینی طور پر ہوگا۔ عوامی سطح پر متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور کارکنان کو دوبارہ فعال کرنا پارٹی کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ تنظیمی سطح پر کچھ کمزوریاں ہیں جنہیں دور کیا جانا ضروری ہے۔
پارٹی قیادت کا مؤقف: احتجاج کامیاب تھا
دوسری طرف، پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر اور مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے احتجاج کو مکمل کامیاب قرار دیا۔ بیرسٹر گوہر کے مطابق ملک بھر کے 170 اضلاع، تحصیلوں اور یونین کونسلز میں احتجاج ہوا، اور عوام نے یہ پیغام دیا کہ وہ آج بھی عمران خان کے ساتھ ہیں۔ ان کے مطابق عوام نے قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ پارٹی ترجمانوں نے میڈیا میں احتجاج کو بھرپور عوامی تائید کا مظہر قرار دیا۔

تنقید یا بہتری؟ سلمان راجہ کا موقف
سلمان اکرم راجہ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کو پارٹی مخالف بیانیے سے تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے، بلکہ یہ ایک جمہوری عمل کا حصہ ہیں۔ ان کے مطابق یہ تنقید نہیں بلکہ اصلاح کا عمل ہے، جس سے پارٹی کو اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع ملے گا۔ یہ رویہ ثابت کرتا ہے کہ پارٹی کے اندرونی حلقے خود احتسابی اور عوامی رابطے کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔
ملک بھر میں گرفتاریوں اور رکاوٹوں کا پس منظر
یہ احتجاج ایسے وقت میں ہوا جب لاہور، کراچی، فیصل آباد، اور اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں پولیس کی جانب سے سخت سیکیورٹی اقدامات اور گرفتاریوں کا سامنا تھا۔ لاہور سے 300 سے زائد کارکن گرفتار کیے گئے، جبکہ پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹس بند کر دیے گئے تھے۔ پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی، اور میڈیا کو بھی احتجاجی کوریج میں مشکلات کا سامنا رہا۔ ان تمام عوامل نے عوامی شرکت کو متاثر کیا، جس پر سلمان اکرم راجہ نے وضاحت طلب کی ہے۔
حقیقی سوال، حقیقی حل
سلمان اکرم راجہ کے مطابق اصل سوال یہ ہے کہ قیادت کی کال پر بھی اگر عوام سڑکوں پر نہیں نکلی تو اس کی اصل وجوہات جاننا ناگزیر ہے۔ محض بیانات سے کام نہیں چلے گا، بلکہ عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ کارکنوں کو متحرک کرنے کے لیے رابطہ مہم، تنظیم سازی، اور اعتماد سازی کا عمل شروع کرنا ہوگا۔ یہی وقت ہے کہ پارٹی قیادت خود آگے بڑھے اور اپنے اندرونی حلقوں سے سنجیدگی سے مشاورت کرے۔
مستقبل کی حکمت عملی: آگے کا لائحہ عمل
سلمان اکرم راجہ نے اشارہ دیا ہے کہ وہ آئندہ پارٹی اجلاس میں یہ تمام باتیں عمران خان کے سامنے رکھیں گے۔ ان کا مقصد تنقید نہیں بلکہ آئندہ احتجاجی تحریکوں کو بہتر بنانا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کو مل کر یہ سوچنا ہوگا کہ عوام کو دوبارہ تحریک کا حصہ کیسے بنایا جائے، اور پارٹی کے بیانیے کو زمینی سطح پر کیسے مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ انداز پارٹی کے لیے نہ صرف اصلاحی ہے بلکہ امید افزا بھی۔
نتیجہ: خود احتسابی کا آغاز؟
سلمان اکرم راجہ کا حالیہ بیان تحریک انصاف کے لیے ایک آئینہ ہے، جس میں تنظیمی کمزوریوں، عوامی رابطے میں کمی، اور احتجاجی حکمت عملی میں بہتری کی ضرورت واضح کی گئی ہے۔ ان کی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کے اندر بھی وہ لوگ موجود ہیں جو صرف نعرے نہیں، نتائج چاہتے ہیں۔ اگر قیادت نے ان باتوں کو سنجیدگی سے لیا، تو نہ صرف پارٹی کے اندر اعتماد بحال ہوگا بلکہ عوامی حمایت میں بھی دوبارہ اضافہ ممکن ہے۔