جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان کو خط میں چھ بڑے سوالات اٹھا دیے
جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط – عدلیہ میں شفافیت کے سوالات
پاکستان کی عدلیہ اس وقت ایک نازک مرحلے سے گزر رہی ہے جہاں اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے درمیان اختلافی بیانیے اور ادارہ جاتی شفافیت کے سوالات سامنے آ رہے ہیں۔ حالیہ پیش رفت میں سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو ایک تفصیلی خط لکھا ہے جو سات صفحات پر مشتمل ہے۔ اس خط میں انہوں نے عدلیہ کی پالیسی سازی، فیصلوں اور طریقہ کار کے حوالے سے چھ اہم سوالات اٹھائے ہیں۔
یہ خط اس وقت منظر عام پر آیا ہے جب پاکستان میں عدلیہ کے کردار، آزادی اور ادارہ جاتی فیصلوں پر عوامی سطح پر بحث و مباحثہ زور پکڑ چکا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کا مؤقف ہے کہ عدلیہ کے ادارے کو شفاف اور خودمختار ہونا چاہیے تاکہ عوامی اعتماد مزید مستحکم ہو سکے۔
خط کا پس منظر
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ وہ چیف جسٹس کو متعدد بار خطوط لکھ چکے ہیں مگر ان کا کوئی تحریری یا زبانی جواب نہیں دیا گیا۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ 8 ستمبر کو ہونے والی جوڈیشل کانفرنس میں عوامی سطح پر چھ سوالات سامنے لائے گئے تھے، مگر ان کے جواب نہیں دیے گئے۔ اس لیے انہوں نے بطور سینئر جج یہ ذمہ داری محسوس کی کہ وہ چیف جسٹس کو براہ راست یاد دہانی کرائیں تاکہ نئے عدالتی سال کے آغاز پر ان سوالات کے جوابات عوام اور ادارے کو فراہم کیے جا سکیں۔
چھ اہم سوالات
1- پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا؟
جسٹس منصور کا پہلا سوال یہ ہے کہ عدلیہ کی پالیسی سازی کے لیے سب سے اہم کمیٹی یعنی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا؟ ان کے مطابق یہ کمیٹی ادارہ جاتی فیصلوں کے لیے بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور اس کا غیر فعال رہنا عدالتی شفافیت پر سوالیہ نشان ہے۔
2- سپریم کورٹ رولز کی منظوری فل کورٹ کے بجائے سرکولیشن کے ذریعے کیوں کی گئی؟
ان کا دوسرا سوال اس بات پر ہے کہ سپریم کورٹ رولز، جو پورے ادارے کی آئینی سمت متعین کرتے ہیں، ان کی منظوری فل کورٹ اجلاس کے بجائے صرف سرکولیشن کے ذریعے کیوں دی گئی؟ جسٹس منصور کے مطابق یہ عمل جمہوری اور شفاف طریقہ کار کے برعکس ہے۔
3- اختلافی نوٹ کے اجراء سے متعلق پالیسی میں انفرادی مشاورت کیوں کی گئی؟
تیسرا سوال اختلافی نوٹ کے حوالے سے تھا۔ انہوں نے لکھا کہ اختلافی نوٹ جاری کرنے کی پالیسی میں تبدیلی کے لیے ججز سے اجتماعی مشاورت کے بجائے انفرادی سطح پر رائے لی گئی، جو کہ ادارہ جاتی طریقہ کار کو کمزور کرتا ہے۔
4- ججز کی چھٹیوں پر جنرل آرڈر کیوں جاری کیا گیا؟
چوتھے سوال میں جسٹس منصور نے کہا کہ ججز کی چھٹیوں کے حوالے سے ایک جنرل آرڈر جاری کیا گیا جبکہ ماضی میں یہ فیصلہ ہر جج اپنی ضرورت اور سہولت کے مطابق کرتا تھا۔ ان کے مطابق یہ اقدام ججز کی انفرادی خودمختاری پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔
5- 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فل کورٹ کیوں تشکیل نہیں دیا گیا؟
پانچواں سوال آئینی حیثیت رکھتا ہے۔ جسٹس منصور نے پوچھا کہ 26ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر فل کورٹ کیوں تشکیل نہیں دیا گیا؟ یہ معاملہ آئینی نوعیت کا ہے اور اس پر تمام ججز کی رائے لینا ناگزیر تھا۔
6- ججز کو خودمختاری دینے کے بجائے کنٹرولڈ فورس کیوں بنایا جا رہا ہے؟
چھٹا اور سب سے اہم سوال یہ تھا کہ عدلیہ میں موجود ججز کو خودمختاری دینے کے بجائے کیوں انہیں ایک کنٹرولڈ فورس کے طور پر پروان چڑھایا جا رہا ہے؟ جسٹس منصور کے مطابق یہ رجحان ادارے کی آزادی کو متاثر کر رہا ہے اور اس سے عدلیہ پر عوامی اعتماد مجروح ہوتا ہے۔
خط کی اہمیت
یہ خط اس لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کہ یہ صرف ذاتی اختلافات یا انتظامی امور کی شکایت نہیں بلکہ ادارہ جاتی اصلاحات کا مطالبہ ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں مؤقف اختیار کیا کہ عدلیہ کی آزادی، شفافیت اور اجتماعی فیصلے ہی ادارے کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔
عدلیہ کی ساکھ اور عوامی اعتماد
پاکستان میں عدلیہ ہمیشہ سے عوامی اعتماد اور احتساب کے ترازو پر کھڑی رہی ہے۔ ایسے میں جب سپریم کورٹ کے اندر سے ہی آوازیں اٹھنے لگیں تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادارے کے اندر اصلاحات اور واضح پالیسی کی ضرورت ہے۔ جسٹس منصور کا یہ خط ایک آئینہ ہے جس میں عدلیہ اپنی موجودہ صورت حال کا جائزہ لے سکتی ہے۔
ممکنہ اثرات
یہ خط نہ صرف عدالتی برادری بلکہ ملک کی مجموعی سیاسی اور آئینی فضا پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔ اگر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ان سوالات کا جواب دیتے ہیں تو یہ عدلیہ کی شفافیت کو مزید اجاگر کرے گا۔ بصورت دیگر، یہ خاموشی عدلیہ پر مزید سوالات کھڑے کر سکتی ہے۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کا خط عدلیہ میں شفافیت، اجتماعی فیصلوں اور ادارہ جاتی آزادی کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ یہ چھ سوالات صرف چیف جسٹس کے لیے نہیں بلکہ پورے عدالتی نظام کے لیے چیلنج ہیں۔ عوام اور قانونی ماہرین اب یہ دیکھنے کے منتظر ہیں کہ نئے عدالتی سال کے آغاز پر چیف جسٹس ان سوالات کے کیا جوابات دیتے ہیں۔
یہ معاملہ اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستان کی عدلیہ کو داخلی سطح پر بھی احتساب اور شفافیت کے عمل سے گزرنے کی ضرورت ہے تاکہ ادارے پر عوام کا اعتماد مزید مضبوط ہوسکے۔
