خاندانی دشمنی کے باعث 28 سال گمشدہ رہنے والے نصیرالدین کی لاش آخرکار ملی
نصیرالدین کی گمشدگی: ایک خاندانی دشمنی کی خوفناک قیمت
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقے ’پالس‘ سے تعلق رکھنے والے نصیرالدین کی زندگی اور موت کی کہانی سننے والوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ خاندانی دشمنی، غیرت کے نام پر قتل، اور دشمنی کی جڑیں اتنی گہری تھیں کہ نہ صرف ایک انسان کو اپنی جان گنوانی پڑی بلکہ اُس کی میت بھی 28 برس تک برفانی غار میں پڑی رہی۔
جون 1997: ایک المناک دن کا آغاز
جون 1997 کا وہ دن جب نصیرالدین اور اُن کے بھائی کثیرالدین اپنے آبائی علاقے وادی ’لیدی‘ سے فرار ہو رہے تھے، اُن کے لیے زندگی کا ایک نیا باب کھلنے والا تھا — لیکن وہ باب موت سے شروع ہوا۔ غیرت کے نام پر ہونے والے ایک قتل کے بعد ان کے خاندان کو خاندانی دشمنی کا سامنا تھا، اور اس دشمنی کا نشانہ بننے سے بچنے کے لیے انہوں نے علاقہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
برف پوش پہاڑ اور آخری لمحے
نصیرالدین اور کثیرالدین الگ الگ گھوڑوں پر سوار ہو کر وادی لیدی کے برفانی پہاڑوں کی طرف نکلے۔ کثیرالدین کے مطابق جب وہ پہاڑوں کے بیچ سفر کر رہے تھے تو اچانک مخالفین کی جانب سے ان پر فائرنگ کی گئی۔ نصیرالدین گھبراہٹ میں ایک گلیشیئر کے اندر برفانی غار کی طرف چلے گئے اور پھر ان سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ اس لمحے سے لے کر اگلے 28 برس تک وہ لاپتہ رہے۔

28 سال بعد دریافت
2025 میں، علاقے میں برف پگھلنے کے بعد مقامی لوگوں نے ایک انسانی ڈھانچہ برفانی غار میں دریافت کیا۔ ڈی این اے ٹیسٹنگ اور شناختی تفصیلات سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ لاش کسی اور کی نہیں بلکہ گمشدہ نصیرالدین کی تھی۔ ان کے کپڑے، سامان اور ہڈیوں کی ساخت نے ان کی شناخت ممکن بنائی۔
تدفین بھی ایک تنازع
المیہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ جب نصیرالدین کی لاش کو اُس کے آبائی علاقے میں دفنانے کا وقت آیا، تو وہی پرانی خاندانی دشمنی پھر سے راستے کی رکاوٹ بن گئی۔ مخالف فریق نے علاقے میں تدفین کی مخالفت کی، جس کے باعث اُن کے لواحقین کو لاش کہیں اور دفنانی پڑی یا فیصلہ مؤخر کرنا پڑا۔
خاندانی دشمنی: ایک سماجی ناسور
یہ واقعہ صرف ایک شخص کی زندگی کا المیہ نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے اُس ناسور کی نشاندہی کرتا ہے جسے ہم ’خاندانی دشمنی‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ نہ صرف بے گناہ جانیں اس کی نذر ہوتی ہیں بلکہ نسل در نسل لوگ اس کی بھینٹ چڑھتے ہیں۔

نصیرالدین کی کہانی: کئی سوال چھوڑ گئی
- کیا نصیرالدین کی موت روکی جا سکتی تھی؟
- کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے خاندانی دشمنیوں کو روکنے کے لیے مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں؟
- کیا سماجی سطح پر ہمیں دشمنیوں کے خاتمے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے؟
نصیرالدین کی گمشدگی اور موت ہمیں یہ سوالات سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
غمزدہ خاندان کی فریاد
کثیرالدین اور دیگر اہلِ خانہ نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ انہیں انصاف فراہم کرے اور ان کی زمین پر اپنے عزیز کی تدفین کا حق دے۔ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ خاندانی دشمنی کے اس تسلسل کو روکا جائے تاکہ آئندہ کسی نصیرالدین کو ایسی موت نہ مرنی پڑے۔