نیپال پرتشدد مظاہرے: سابق وزیراعظم جھالا ناتھ کھنال کی اہلیہ جاں بحق، سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا
جنوبی ایشیا کا پہاڑی ملک نیپال گزشتہ کئی ہفتوں سے شدید سیاسی اور سماجی بحران کا شکار ہے۔ عوامی بے چینی، حکومت مخالف جذبات اور کرپشن کے خلاف بڑھتے ہوئے احتجاج نے ملک کو ایک خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والے نیپال پرتشدد مظاہرے نہ صرف عوامی املاک کی تباہی کا باعث بنے بلکہ انہوں نے سیاسی قیادت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ان مظاہروں کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس دوران نیپال کے سابق وزیراعظم جھالا ناتھ کھنال کی اہلیہ کو زندہ جلا دیا گیا۔
سانحہ کھنال ہاؤس
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق منگل کے روز حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں کے دوران مظاہرین نے سابق وزیراعظم جھالا ناتھ کھنال کے گھر کو آگ لگا دی۔ آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ ان کی اہلیہ باہر نہ نکل سکیں اور شعلوں کی لپیٹ میں آ کر جاں بحق ہو گئیں۔ یہ واقعہ نہ صرف نیپال بلکہ پورے خطے کے لیے ایک ہولناک اور افسوسناک خبر تھی۔
مظاہروں کی بنیادی وجہ
نیپال پرتشدد مظاہروں کی اصل وجہ حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا سائٹس سمیت 26 ویب سائٹس پر عائد پابندی تھی۔ یہ پابندی عوام، خصوصاً نوجوانوں کے لیے ناقابلِ برداشت ثابت ہوئی۔ نیپال کے نوجوانوں کا کہنا تھا کہ حکومت اس اقدام کے ذریعے آزادیٔ اظہارِ رائے کو دبانا چاہتی ہے اور کرپشن کے خلاف آوازوں کو خاموش کر رہی ہے۔
کرپشن کے خلاف عوامی غصہ
نیپال کی عوام عرصے سے کرپشن، بدانتظامی اور روزگار کے مسائل کا شکار ہیں۔ جب حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی لگائی تو یہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کا سبب بنا۔ ہزاروں نوجوان سڑکوں پر نکل آئے اور پُرتشدد مظاہروں کا آغاز ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مظاہرے پورے ملک میں پھیل گئے اور حالات حکومت کے قابو سے باہر ہو گئے۔
وزیراعظم کے پی شرما اولی کا استعفیٰ
نیپال پرتشدد مظاہروں کی شدت اس حد تک بڑھی کہ وزیراعظم کے پی شرما اولی کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ عوامی دباؤ اور مسلسل ہنگاموں نے ان کے لیے اقتدار پر قائم رہنا ناممکن بنا دیا۔ استعفیٰ کے بعد صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی اور مظاہرین نے صدر رام چندر پوڈیل اور وزیراعظم کے پی شرما اولی کی رہائش گاہ کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔
کرفیو اور سیکیورٹی فورسز کی ناکامی
حکومت نے حالات پر قابو پانے کے لیے دارالحکومت کھٹمنڈو سمیت کئی شہروں میں کرفیو نافذ کیا، لیکن اس کے باوجود مظاہرین سڑکوں پر نکلتے رہے۔ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نوجوانوں نے سرکاری دفاتر، رہائشی مکانات اور عوامی املاک کو نقصان پہنچایا۔ اس کے بعد آخرکار فوج کو طلب کرنا پڑا اور نیپال کی سیکیورٹی فورسز نے ملک کی سڑکوں کا کنٹرول سنبھال لیا۔

فوج کا مؤقف
فوجی ترجمان نے کہا کہ ملک میں امن قائم کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں گے۔ تاہم، انہوں نے یہ بھی کہا کہ طاقت کے استعمال کو آخری حربہ سمجھا جائے گا اور زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے گی کہ عوامی غصے کو پرامن طریقے سے قابو میں لایا جائے۔
اقوام متحدہ کی تشویش
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک نے نیپال کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ "تشدد جواب نہیں ہے” اور حکومت و سیکیورٹی اداروں سے اپیل کی کہ وہ مظاہرین کے ساتھ تحمل سے پیش آئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام کی جائز شکایات کو حل کرنے کے لیے مذاکرات اور اصلاحات کی ضرورت ہے، نہ کہ تشدد اور جبر کی۔
نیپال کے سیاسی بحران کی جڑیں
یہ حقیقت ہے کہ نیپال طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ بادشاہت کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کے باوجود مختلف حکومتیں کرپشن، بدانتظامی اور عوامی توقعات پر پورا نہ اتر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام میں غصہ بڑھتا گیا اور بالآخر نیپال پرتشدد مظاہروں کی شکل میں پھٹ پڑا۔
علاقائی اور عالمی ردعمل
نیپال کے حالات پر خطے کے دیگر ممالک، خصوصاً بھارت اور چین نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نیپال کی جغرافیائی حیثیت اسے ایک اسٹریٹیجک ملک بناتی ہے، اس لیے اس میں پیدا ہونے والا عدم استحکام پورے خطے کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ عالمی برادری نے نیپال کی حکومت اور عوام سے پرامن طریقے سے مسائل کے حل پر زور دیا ہے۔
عوامی جذبات اور مستقبل کے خدشات
نیپال کے عوام خصوصاً نوجوان طبقہ اب کھل کر حکومت کی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کر رہا ہے۔ تاہم، تشدد اور املاک کو نقصان پہنچانے سے ان کی جدوجہد کمزور ہو سکتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر نیپالی قیادت نے جلد از جلد اصلاحات نہ کیں تو ملک مزید افراتفری اور سیاسی بحران کا شکار ہو سکتا ہے۔
نیپال پرتشدد مظاہروں کے اثرات
ان مظاہروں کے نتیجے میں:
- عوامی املاک کی اربوں روپے کی تباہی ہو چکی ہے۔
- درجنوں افراد جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔
- سیاسی قیادت میں افراتفری بڑھ گئی ہے۔
- نیپال کی معیشت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔
- عالمی سطح پر نیپال کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔
اصلاحات کی ضرورت
ماہرین کا کہنا ہے کہ نیپال کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت شفافیت، کرپشن کے خاتمے اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی ہے۔ اگر حکومت نے عوامی مطالبات پر غور نہ کیا تو موجودہ نیپال پرتشدد مظاہرے محض ایک ابتدا ہوں گے اور مستقبل میں مزید خطرناک صورت اختیار کر سکتے ہیں۔
نیپال پرتشدد مظاہرے ایک سنگین قومی بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں جنہوں نے عوامی بے چینی کو عالمی سطح پر اجاگر کر دیا ہے۔ سابق وزیراعظم جھالا ناتھ کھنال کی اہلیہ کا المناک سانحہ، وزیراعظم کے استعفیٰ، کرفیو کی خلاف ورزیاں اور فوج کی مداخلت اس بات کی گواہی ہیں کہ نیپال کو فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔ اگر نیپالی قیادت اور عوام نے باہمی مذاکرات اور امن کے ذریعے مسائل کا حل تلاش نہ کیا تو ملک مزید سیاسی انتشار اور بدامنی کا شکار ہو سکتا ہے۔