نیپال سوشل میڈیا پابندی احتجاج شدت اختیار کر گیا، 10 ہلاک اور 87 زخمی
نیپال میں حالیہ دنوں شروع ہونے والا نیپال سوشل میڈیا پابندی احتجاج نہ صرف ملک میں سیاسی بحران کو مزید گہرا کر رہا ہے بلکہ عوام اور حکومت کے درمیان تناؤ کو بھی نمایاں کر رہا ہے۔ حکومتی فیصلے کے تحت فیس بک، واٹس ایپ، یوٹیوب، ٹک ٹاک اور ایکس سمیت 26 بڑی ایپس پر پابندی لگائی گئی جس نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔
پس منظر
نیپالی حکومت نے اعلان کیا کہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو رجسٹریشن کرانا ہوگی، بصورت دیگر انہیں بند کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد 26 ایپس بند کر دی گئیں، جن میں وہ تمام پلیٹ فارمز شامل ہیں جو روزمرہ زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔ نتیجتاً ملک بھر میں نیپال سوشل میڈیا پابندی احتجاج کا آغاز ہوا۔
احتجاج کی شدت
احتجاج کا آغاز قومی ترانے اور پرچم لہرانے سے ہوا لیکن جلد ہی یہ پرتشدد ہوگیا۔ مظاہرین نے پارلیمنٹ ہاؤس کا گھیراؤ کیا اور ریڈ زون کی رکاوٹیں توڑ کر اندر داخل ہو گئے۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، واٹر کینن اور ربڑ کی گولیاں استعمال کیں۔ ان جھڑپوں میں 10 مظاہرین ہلاک اور 87 سے زائد زخمی ہوگئے۔ یہ سب کچھ اس بات کا ثبوت ہے کہ نیپال سوشل میڈیا پابندی احتجاج (Nepal social media ban protest) محض ایک وقتی ردعمل نہیں بلکہ ایک بڑے عوامی غصے کا اظہار ہے۔
عوامی ردعمل
مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج صرف سوشل میڈیا پابندی کے خلاف نہیں بلکہ حکومتی کرپشن کے خلاف بھی ہے۔ نوجوان طلبہ، خاص طور پر یوجن راجبھنداری اور اکشما تومروک جیسے طلبہ نے کھل کر کہا کہ یہ تحریک حکومت کے آمرانہ رویے کے خلاف ہے۔ عوام کو یقین ہے کہ نیپال سوشل میڈیا پابندی احتجاج ایک نئی تبدیلی کا آغاز ہے۔
پولیس اور اسپتالوں پر دباؤ
کھٹمنڈو میں پولیس ترجمان شیکھر کھنال نے بتایا کہ شہر اب بھی مظاہرین سے بھرا ہوا ہے۔ سول اسپتال کی افسر رنجنا نیپال نے کہا کہ آنسو گیس کے اثرات اسپتال تک پہنچ گئے ہیں، جس نے طبی عملے کے لیے کام کرنا مشکل بنا دیا ہے۔ یہ صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ نیپال سوشل میڈیا پابندی احتجاج صرف سیاسی نہیں بلکہ انسانی بحران بھی بنتا جا رہا ہے۔
حکومتی اقدامات
حکومت نے فوری طور پر پارلیمنٹ، صدر کی رہائش گاہ اور وزیر اعظم کے دفتر کے اطراف کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ کئی دوسرے اضلاع میں بھی اسی نوعیت کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا سختی سے نیپال سوشل میڈیا پابندی احتجاج ختم ہوگا یا مزید شدت اختیار کرے گا؟
سوشل میڈیا پر ردعمل
دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ حکومت نے سوشل میڈیا پر پابندی لگا دی ہے مگر پھر بھی مختلف پلیٹ فارمز پر ویڈیوز اور تصاویر وائرل ہو رہی ہیں۔ ان میں سیاستدانوں کے بچوں کی پرتعیش زندگی اور عام عوام کی مشکلات کا تقابل دکھایا جا رہا ہے۔ یہ آن لائن مواد نیپال سوشل میڈیا پابندی احتجاج کو مزید طاقت فراہم کر رہا ہے۔
ماہرین کی رائے
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت نے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگا کر عوامی اعتماد کھو دیا ہے۔ اگر یہ پالیسی جاری رہی تو نہ صرف نیپال میں مزید احتجاج ہوں گے بلکہ خطے میں بھی سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ نیپال سوشل میڈیا پابندی احتجاج حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
مستقبل کے خدشات
اگر حکومت نے عوامی مطالبات کو نظرانداز کیا تو خدشہ ہے کہ نیپال سوشل میڈیا پابندی احتجاج ایک وسیع تحریک میں بدل جائے گا۔ یہ تحریک صرف آن لائن آزادی کے لیے نہیں بلکہ شفافیت، جمہوریت اور نظام کی تبدیلی کے لیے بھی ہوگی۔
نیپال اس وقت ایک سنگین سیاسی اور سماجی بحران سے گزر رہا ہے۔ نیپال سوشل میڈیا پابندی احتجاج نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عوام اب اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یہ تحریک مستقبل میں نیپال کے سیاسی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔
امام مسجد الحرام کا سخت پیغام: سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کی روک تھام ضروری ہے
Comments 1