سبزیوں کے نئے نرخ عوام کی مشکلات میں اضافہ، مہنگے داموں فروخت کا سلسلہ جاری
ملک بھر میں سبزیوں کے نئے نرخ سامنے آ گئے ہیں مگر بدقسمتی سے سرکاری اور اوپن مارکیٹ کی قیمتوں میں فرق برقرار ہے۔ عوام کو ریلیف دینے کے دعووں کے باوجود، دکاندار اپنی من مانی قیمتوں پر سبزیاں فروخت کر رہے ہیں۔ لاہور، پشاور، فیصل آباد اور دیگر شہروں میں شہری مہنگی سبزیاں خریدنے پر مجبور ہیں جبکہ ضلعی انتظامیہ کی کارروائیاں کمزور دکھائی دے رہی ہیں۔
لاہور میں سبزیوں کے نئے نرخ اور مہنگائی کی صورتحال
لاہور میں سبزیوں کے نئے نرخ جاری کر دیے گئے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
سرکاری نرخ ناموں کے مطابق ٹماٹر کی قیمت 185 روپے فی کلو مقرر کی گئی ہے لیکن بازار میں یہی ٹماٹر 350 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہا ہے۔
اسی طرح آلو کی سرکاری قیمت 85 روپے کلو ہے مگر دکاندار اسے 100 روپے میں بیچ رہے ہیں۔
پیاز کی سرکاری قیمت 95 روپے فی کلو ہے لیکن مارکیٹ میں 120 روپے میں فروخت جاری ہے۔
لہسن 200 روپے کے سرکاری نرخ کے بجائے 250 روپے فی کلو تک بیچا جا رہا ہے، جبکہ ادرک کے سرکاری نرخ 610 روپے کے مقابلے میں 700 روپے فی کلو وصول کیے جا رہے ہیں۔
عوامی ردِعمل اور گورننس پر سوال
شہریوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ صرف سبزیوں کے نئے نرخ جاری کرنے تک محدود ہے، عملدرآمد پر کوئی توجہ نہیں۔
عوامی حلقوں کے مطابق روزانہ قیمتوں کے تعین کے باوجود، دکاندار من مانی نرخ مقرر کرتے ہیں۔
شہریوں نے شکایت کی کہ نرخ نامے صرف کاغذوں تک محدود ہیں، مارکیٹوں میں ان کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔
دیگر سبزیوں کے نرخ میں فرق
پھول گوبھی کی سرکاری قیمت 80 روپے فی کلو مقرر ہے مگر مارکیٹ میں یہی گوبھی 100 روپے فی کلو تک فروخت ہو رہی ہے۔
بند گوبھی کے سبزیوں کے نئے نرخ 138 روپے ہیں لیکن بازار میں 150 روپے فی کلو میں دستیاب ہے۔
لیموں کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے، سرکاری نرخ 85 روپے فی کلو ہیں مگر بازار میں 100 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔
پشاور میں قیمتوں میں معمولی کمی
پشاور میں البتہ ایک روز میں ٹماٹر کی قیمت میں 40 روپے فی کلو کمی ہوئی ہے۔
ٹماٹر کی سرکاری قیمت 240 سے کم ہو کر 200 روپے ہو گئی ہے، جبکہ پرچون میں یہ 260 سے کم ہو کر 220 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پشاور میں یہ کمی عارضی ہے کیونکہ ٹرانسپورٹ کرایوں اور سپلائی چین کے مسائل بدستور موجود ہیں۔
سبزیوں کے نئے نرخ اور منافع خوری کا رجحان
تجزیہ کاروں کے مطابق سبزیوں کے نئے نرخ جاری ہونے کے باوجود منافع خور مافیا سرگرم ہے۔
مارکیٹ کمیٹیاں روزانہ نرخ طے کرتی ہیں مگر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال جوں کی توں ہے۔
کئی دکاندار نرخ نامے آویزاں نہیں کرتے اور اگر کوئی شہری سوال کرے تو جھگڑے کی نوبت آ جاتی ہے۔
صارفین کے لیے مشکلات
شہری طبقہ روزانہ کی مہنگائی سے پریشان ہے۔
سبزیوں کے نئے نرخ کے باوجود اشیاء خوردونوش عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہیں۔
ایک متوسط گھرانے کے لیے روزمرہ سبزیاں خریدنا بھی بجٹ سے باہر ہو گیا ہے۔
مہنگائی کی یہ لہر خاص طور پر نچلے طبقے کے لیے ناقابلِ برداشت بنتی جا رہی ہے۔
ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوال
انتظامیہ کی جانب سے کارروائیوں کے دعوے کیے جاتے ہیں، مگر عملی طور پر سبزیوں کے نئے نرخ پر عملدرآمد کہیں نظر نہیں آتا۔
اکثر مقامات پر دکانداروں کے خلاف جرمانے یا چھاپے دکھاوے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر قیمتوں پر مؤثر کنٹرول نہ کیا گیا تو آنے والے ہفتوں میں صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
سپلائی چین اور موسمی اثرات
کسانوں کا کہنا ہے کہ موسمی تبدیلی اور ٹرانسپورٹ کے بڑھتے اخراجات کے باعث سبزیوں کے نئے نرخ میں فرق بڑھا ہے۔
زرعی پیداوار میں کمی اور ذخیرہ اندوزی بھی مہنگائی کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔
ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سپلائی چین بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ قیمتوں میں استحکام پیدا ہو۔
مرغی کا گوشت قیمت میں ہوشربا اضافہ، عوام پریشان
مستقبل کا لائحہ عمل
صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف سبزیوں کے نئے نرخ مقرر کریں بلکہ ان پر سختی سے عملدرآمد بھی یقینی بنائیں۔
عوام کو آن لائن شکایت کے پلیٹ فارمز مہیا کیے جائیں تاکہ دکانداروں کی من مانی کے خلاف فوری کارروائی ہو سکے۔
اگر شفاف نظام قائم نہ کیا گیا تو مہنگائی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔









