نیویارک میئر ظہران ممدانی کی فتح: اک نئے سیاسی دور کا آغاز
جب ظہران ممدانی کا نام سنائی دیا گیا، تو نیویارک میں خوشی اور اُمید کی لہر دوڑ گئی۔ یہ جیت صرف ایک میئر کی نشست کا نہیں بلکہ ایک نئے عہد کی ابتداء کا اعلان ہے۔ نیویارک میئر ظہران ممدانی بن گئے ہیں، اور ان کی فتح نے وہ ممکن دکھائی جو بہت عرصے سے ممکن محسوس نہیں ہوتا تھا۔
تاریخی کامیابی
نیویارک میئر ظہران ممدانی کی جیت اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ وہ نہ صرف شہر کے پہلے مسلم میئر بنے بلکہ عمر کی حد کے لحاظ سے بھی سب سے کم عمر میئر ہیں۔ اس حصول نے نیویارک کی سیاست میں ایک نیا رُخ دیا ہے۔ فوکس کی ورڈ ’نیویارک میئر ظہران ممدانی‘ اس پوسٹ کا محور ہے اور ہم بارہا اسے یاد رکھیں گے۔
جیت کے بعد کا خطاب
اپنے خطاب میں نیویارک میئر ظہران ممدانی نے کہا کہ:
“آج ہم نے سیاست کا صفحہ پلٹ دیا ہے۔ نیویارک آج اُن کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے جنہوں نے اب تک ریاست کی طاقت کو ٹیکس بچانے، ارب پتیوں کی جیبیں بھرنے کے لیے استعمال کیا۔”
انہوں نے واضح کیا کہ یہ محض انتخابی فتح نہیں، بلکہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ نیویارک میئر ظہران ممدانی نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ ایسے ارب پتی جو ٹیکس بچاتے رہے، اب ایسا نہیں ہوگا۔ اور ذہن میں رہنے والی بات یہ ہے کہ نیویارک میئر ظہران ممدانی خود ایک تارکِ وطن ہیں — اور وہ شہر کی قیادت کر رہے ہیں۔
مقابلے کی جھلک
نیویارک میئر ظہران ممدانی نے انتخاب میں تقریباً 50.4 فیصد ووٹ حاصل کیے، اور ان کے حریف Andrew Cuomo اور Curtis Sliwa کو پیچھے چھوڑا۔ ان کے انتخابی مہم کا مرکزی محور تھا: زندگی کی گزر بسر کو آسان بنانا، مساوات کی بنیاد پر فیصلے کرنا، اور عوام کے مادّی مسائل کو سامنے لانا۔ فوکس کی ورڈ (نیویارک میئر ظہران ممدانی) یہاں بھی اہم ہے کیونکہ یہی وہ شخصیت ہے جس کی فتح تحریر کا موضوع ہے۔
مہماتی ایجنڈا
نیویارک میئر ظہران ممدانی نے مہم کے دوران عوام کو یہ وعدے کیے تھے:
- کرایوں کا منجمد کرنا
- شہر کی ملکیت میں گروسری اسٹورز قائم کرنا
- عوام کے لیے بسوں کا سفر مفت کرنا
یہ وعدے ان کی حکمت عملی کا حصہ تھے تاکہ وہ شہر کے عام آدمی کی آواز بن سکیں۔ نیویارک میئر ظہران ممدانی نے یہ ثابت کیا کہ وہ صرف نعرے نہیں بلکہ عمل کی بات کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کے سامنے ایک ستون
ظہران ممدانی نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ:
“نیویارک آج ٹرمپ کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے، ٹرمپ جیسوں کا راستہ ہم اس طرح روکیں گے۔”
یہ بیان نہ صرف ان کی جیت کی علامت ہے بلکہ معاشی اور سیاسی طاقتوں کے خلاف ایک اعلان بھی ہے۔ نیویارک میئر ظہران ممدانی نے اس ٹکراؤ کو خود اپنے لیے چیلنج کے طور پر قبول کیا — اور ان لوگوں کی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا وعدہ کیا جو عرصہ سے عوام کی مشکلات کو نظرانداز کرتے آئے تھے۔
عام آدمی کی جیت
نیویارک میئر ظہران ممدانی نے اپنے خطاب میں بارہا کہا کہ یہ ان کی ذاتی فتح نہیں بلکہ نیویارک کے عام آدمی کی جیت ہے، کیونکہ وہ “ہم آپ میں سے ہیں” کی پالیسی پر عمل کریں گے۔ اس طرح انہوں نے اپنی شناخت کو عوام کے ساتھ جوڑا، اور فوکس کی ورڈ ‘نیویارک میئر ظہران ممدانی’ نے ان کے موقف کی بنیاد بنائی۔
نوجوان قیادت اور تبدیلی
نیویارک میئر ظہران ممدانی کی کم عمر اور نۓ وژن نے یہ ثابت کیا ہے کہ قیادت صرف تجربے کا مطلب نہیں بلکہ جذبے، لوگوں کی خدمت کا جذبہ، اور بدلنے کی جرات کا نام بھی ہے۔ اس جیت نے امید کی کرن روشن کی ہے کہ شہر کی سیاست اب صرف طاقتور حلقوں کا میدان نہیں رہے گی۔ فوکس کی ورڈ بارہا اس تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے۔
آگے کیا؟
اب سوال یہ ہے کہ نیویارک میئر ظہران ممدانی کس طرح عملی اقدامات اٹھائیں گے؟ اُن پر بڑے چیلنجز ہیں: بجٹ کی حد، ریاستی حکام کے ساتھ تعلقات، اور شہر کے پیچیدہ محاذات — جیسے رہائش، قیام اخراجات، ٹرانسپورٹ اور عوامی خدمات۔ لیکن انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ “صرف امید نہیں بلکہ عمل” کے لیے آئے ہیں۔
نیویارک میں اسرائیل مخالف احتجاج: نیتن یاہو کی گرفتاری کا مطالبہ
نیویارک میئر ظہران ممدانی کی فتح نے ایک پیغام دیا ہے: کہ تبدیلی ممکن ہے، کہ آوازیں سنی جائیں گی، کہ شہر کے ہر محلے کا فرد اہم ہے۔ یہ صرف ایک انتخابی نتیجہ نہیں — یہ ایک نئی شروعات ہے۔ مستقبل میں وقت بتائے گا کہ وہ کس حد تک اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہیں، مگر آج ان کی جیت سے یہ یقین ہوتا ہے کہ شہر کا سیاسی منظرنامہ بدل گیا ہے۔ فوکس کی ورڈ ‘نیویارک میئر ظہران ممدانی’ ایک ایسی علامت بن چکا ہے جو مستقبل کی سمت کا اشارہ دیتا ہے۔









